ضم اضلاع کا بدلتا چہرہ

یہ ایک بوڑھے آدمی کے عطیہ کردہ وہ پر خلوص چالیس روپے تھے جو آج ضلع کرم کے مین بازار کے عین وسط میں ایک پانچ منزلہ عمارت کی شکل میں حیدری ہسپتال کے نام سے ہزاروں بے یار ومددگار لوگوں کی مفت علاج و معالجہ کا ایک بڑاذریعہ بن گیا ہے۔ سولہ بیڈز پر مشتمل اس ہسپتال میں روزانہ کے حساب سے سو سے لے کر ایک سو پچاس تک مریضوں کا مفت علاج کیا جاتا ہے۔جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ اس ہسپتال میں آپریشن تھیٹر کے علاوہ سٹیٹ آف دی آرٹ ایکسرے مشین، لیبارٹری اور ای سی جی کی سہولت بھی موجود ہے۔ عمارت کی دوسری چھت پر جدید تحقیق کے حوالے سے ماہرین طب کی بحث و تمحیص کے لئے ایک شاندار کانفرنس روم بھی موجود ہے۔ایک ٹرسٹ کے زیر اہتمام چلنے والے اس ہسپتال کے منتظم اعلیٰ نے ایک ملاقات کے دوران بتایا کہ ٹرسٹ نے کس طرح اس سال سیلاب متاثرین کے لئے پچیس ملین روپے کی لاگت سے امدادی سامان سوات اور افغانستان روانہ کیا۔یہ ضلع کرم کے باسیوں کی ہمت اور انسان دوستی کی ایک چھوٹی سی مثال ہے۔ بہت سی ایسی متحرک تنظیمیں عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کام کررہی ہیں۔ درجنوں کے حساب سے مدرسے اور غیررسمی تعلیم کے مراکز چلانے کے علاوہ انجمن مفت میڈیکل کیمپس کا بھی اہتمام کرتی رہتی ہیں اور عوامی سہولت کے لئے ایک بہت بڑا ایمبولینس سروس بھی چلاتی ہیں۔یہی انجمن ہر مہینے ایک خاصی تعداد میں قومی(قبائلی)نوعیت کے مختلف مسائل کو حل کرکے حکومتی اداروں کا بوجھ بھی کم کرتی ہیں۔ دیوار مہربانی کے نام سے منسوب ایک دیوار پر ٹانگے ہوئے استعمال شدہ کپڑے، جوتے اور گھر کے استعمال کا کوئی بھی سامان لاکر رکھ دیا جاتا ہے اور ایک عام شہری کے لئے عام دعوت ہوتی ہے کہ وہ اسی جگہ سے اپنی ضرورت کی کوئی بھی چیز اٹھاسکتا ہے اور اسی طرح اپنے گھر میں سے کوئی ایک فالتو چیز لاکر کسی دوسرے ضرورت مند کے لئے چھوڑسکتا ہے ۔ اس پروگرام کے تحت علاقے میں لے دے کی بنیاد پر ضرورت مندوں کی ضرورریات کو پوری کرنے کا بہترین انتظام کیا گیا ہے جو ابھی کافی مقبولیت اختیار کرچکا ہے۔ مجھے یاد ہے آج سے دو سال قبل جب میں پارا چنار گیا تھا تو اجتماعی شادیوں کے ایک پرنور تقریب میں شرکت کرنے اور کچھ دولہوں کو رخصت کرنے کا شرف بھی حاصل ہوا تھا۔ اسی محفل میں کل بھاسٹھ جوڑوں کی شادیاں انجام پائی تھیں اور ہر شادی پر اٹھنے والے اخراجات ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ نہ تھے جس کا اہتمام مذکورہ فلاحی تنظیم نے کیا تھا۔ تقریب کے اختتام پر دولہا اور دلہن کے گھر والوں اور چیدہ چیدہ رشتہ داروں کے لئے کھانے کا بھی مناسب انتظام کیا گیا تھا۔یہی جذبہ ہمیں جنوبی وزیرستان میں بھی ملا جہاں قذافی اور طاہری ویلفیئر فاونڈیشن جیسی فعال تنظیمیں لوگوں میں اپنی مدد آپ کے تحت انسانیت کی خدمت کے جذبے کو جگانے کے لئے کمر کسے ہوئے ہیں ۔ اس پوری تمہید کا مطلب یہ ہے کہ مملکت خداداد میں سچے جذبوں کی کمی نہیں ہے۔ یہ کہانی ہے ضم اضلاع کی جہاں لوگوں نے ماضی قریب میں دہشت گردی سے متاثر ہوکر اپنے گھر بار چھوڑے تھے۔ ان کو یہ بھی یاد ہے کہ جب وہ دہشت گردی سے متاثر ہوکر اپنا گھر بار چھوڑ گئے تو کس طرح ملک کے دیگر حصوں میں انکے بھائیوں نے اپنے نوالے انکے ساتھ شریک کئے، ان کے لئے اپنے گھروں کے دروازے کھول دیئے اور ان کو اپنے پلکوں پر بٹھائے رکھا۔ پاکستان کے ان باشعور عوام نے نہ صرف دہشت گردی میں اپنے بھائیوں کی مدد کی ہے بلکہ جب بھی کوئی انسانی یا قدرتی آفت آں پڑی ہے انہوں نے دل کھول کر اپنے ہم وطنوں کی مدد کی ہے۔ سیلاب کی تباہ کاریاں ہوں یا زلزلے کی آفت، وبائی امراض ہوں یا کوئی اور انسانی اور قدرتی آفت، اس ملک کے غیور اور باشعور عوام انسانی جذبے کے تحت اپنے بھائیوں کی مدد کے لئے پہلی قطار میں کھڑے دکھائی دینگے۔ انہی تنظیموں کو اگر حکومت کی جانب سے تھوڑی سی سرپرستی مل جائے تو بلاشبہ یہی تنظیمیں ملک میں دکھی انسانیت کے لئے خدمت کے جذبے کو پروان چڑھانے کے ساتھ ساتھ ملی یکجہتی اور قومی وحدت کو فروغ دینے میں کلیدی کردار اداکرسکتی ہیں۔ عوام کو انسانیت کی خدمت کیلئے پلیٹ فارم مہیا کرکے یہی تنظیمیں معاشرے میں انسانی اقدار کو فروغ دینے، محبتوں کے پیغام کو عام کرنے، نفرتوں کی فضائیں ختم کرنے، ایک دوسرے کے لئے برداشت کا مادہ پیدا کرنے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اسکے ملک کے گھمبیر مسائل کو مل بیٹھ کر باہمی افہام و تفہیم کے ساتھ حل کرنے کے لئے کثیر الجہتی کوششوں کے زریعے ایک اچھا ماحول پیدا کر سکتی ہیں۔

مزید پڑھیں:  رموز مملکت خویش خسروان دانند