بڑے ملکوں اور عالمی اداروں کا فرض

ہمیں اور آپ کو کھلے دل سے یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے پاکستان میں حالیہ سیلاب سے پیدا شدہ صورتحال اور درپیش چیلنجوں سے عالمی برادری کو آگاہ کرتے ہوئے جن مسائل اور مشکلات کی نشاندہی کی ہے ان سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا، عالمی برادری بھی اس امر سے انکار نہیں کر سکتی کہ دنیا میں درآیا ماحولیاتی اتھل پتھل ان گیسوں کے اخراج سے ممکن ہوا جن کی وجہ سے متاثر ہونے والے 8ملکوں میں پاکستان پہلے نمبر پر ہے، قبل ازیں اس اہم نکتہ کی جانب اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بھی ایک سے زائد بار عالمی برادری کو متو جہ کر چکے ہیں، عالمی برادری اور خصوصا ترقی یافتہ ممالک کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں برپا ہوئی آفتوں کی ذمہ داری ان کی ماحول دشمن توانائی پالیسی اور نت نئے تجربات ہیں، گیسوں کے اخر اج سے ان ترقی پذیر ممالک بالخصوص پاکستان کا رتی برابر حصہ بھی نہیں جو فی الوقت اس آفت سے دوچار ہے جو سیلاب کی صورت میں برپا ہوئی اور اس سے ملک کا ایک تہائی رقبہ اور ساڑھے تین کروڑ سے زائد افراد متاثر ہوئے، اپنے گھر بار مال مویشی اور کاشت شدہ فصلوں سے محروم لاکھوں خاندانوں کی بحالی کے مرحلہ میں اگر دنیا نے سنجیدگی کے ساتھ پاکستان کی مدد نہ کی تو ایک بڑے انسانی المیئے کے جنم لینے کا خطرہ ہر گزرنے والے دن کے ساتھ بڑھتا جارہا ہے، موسمیاتی تبدیلیوں کے ذمہ دار ممالک کو اپنے فرائض سے پہلوتہی نہیں برتنی چاہئے، سیلاب سے پیدا شدہ صورتحال کے باعث پاکستان اس وقت بدترین مسائل سے دوچار ہے، وسائل میں کمی کی وجہ سے متاثرین کی ابتدائی ضروریات بھی پوری نہیں ہو پائیں، اگلے چند دنوں میں موسم کی تبدیلی کی شروعات کے ساتھ ہی متاثرین کے مسائل میں اضافہ ہو گا اس وقت بھی لگ بھگ 60فیصد متاثرین کھلے آسمان کے نیچے پڑے ہیں انہیں موسمیاتی شدت سے محفوظ رکھنے کے لئے جن اشیا کی فوری ضرورت ہے دنیا کو نہ صرف ان اشیا کے حوالے سے پاکستان کی مدد کرنی چاہئے بلکہ اگلے مرحلہ میں ان کی بحالی کے لئے بھی بھرپور تعاون کرنا ہوگا، حالیہ سیلاب سے جہاں ساڑھے تین کروڑ سے زائد افراد شدید متاثر ہوئے ہیں وہیں یہ خطرہ بھی بڑھ گیا ہے کہ اس صورتحال سے نمٹنے میں تاخیر ہوئی تو خطہ غربت سے نیچے آباد لوگوں کی تعداد میں ڈیڑھ ارب افراد کا اضافہ ہو جائے گا، آبادی میں غربت کی شرح میں اضافے سے پیدا ہونے والا عدم توازن یقینا آنے والے دنوں میں مسائل پیدا کرنے کا موجب بنے گا۔ہماری دانست میں سیلاب متاثرین کی فوری مدد اور بحالی کے مرحلہ میں وسائل تو درکار ہوں گے ہی اس کے ساتھ اس امر کو بھی مدنظر رکھا جانا چاہئے کہ متاثرین کو یہ احساس نہ ہونے پائے کہ انہیں بوجھ سمجھا جارہا ہے، سیلاب سے قبل سفید پوشی کے ساتھ اپنے گھروں میں مقیم ان متاثرین کی عزت نفس کا بہر صورت خیال رکھنا ہوگا،دینے والے ہاتھ کسی حادثے یا قدرتی آفت کے نتیجے میں لینے والے بن جائیں تو انسان ٹوٹ کر رہ جاتا ہے، ثانیا یہ کہ نجی اور حکومتی سطح پر متاثرین کے لئے امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہم وطنوں کو اپنے متاثرہ بہن بھائیوں کی دلجوئی اور ان کی باوقار انداز میں بحالی کو یقینی بنانا ہوگا تاکہ متاثرین نفسیاتی مسائل سے دوچار نہ ہونے پائیں، اس امر پر دوآرا ہرگز نہیں کہ طاقتور ملکوں کے توانائی پروگراموں اور مسلسل تجربات سے پیدا ہوئے ماحولیاتی مسائل کا حل تلاش کرنے میں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا گیا اس طور یہ ذمہ داری بھی ان طاقتور ملکوں کی ہے کہ وہ موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ملکوں بالخصوص پاکستان جو اس صورتحال میں سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے میں متاثرین کی بحالی اور تعمیر نو کے مرحلے میں اپنی ذمہ داریاں پوری کریں ، اس ضمن میں گزشتہ دنوں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے یہ مناسب تجویز دی تھی کہ ترقی یافتہ ممالک کے جن اداروں کی وجہ سے موسمیاتی ابتری پیدا ہوئی متعلقہ ممالک ان اداروں اور کمپنیوں پر اضافی ٹیکس لگا کر پاکستان کی مدد کریں، بھرپور اور بروقت مدد اس لئے بھی ضروری ہے کہ40لاکھ ایکڑ کاشت شدہ رقبے کی فصلیں تباہ ہوگئی ہیں ابھی متاثرہ علاقوں میں سیلابی پانی کے خشک ہونے میں کم وبیش ڈیڑھ دو ماہ مزید لگ سکتے ہیں اس صورت میں گندم کی فصل کاشت کرنے میں نہ صرف مشکلات پیدا ہوں گی بلکہ متاثرہ علاقوں میں دیگر فصلوں اور سبزیوں کی کاشت بھی نہیں ہوسکے گی جس کی وجہ سے چند ماہ بعد پاکستان کو خطرناک غذائی بحر ان کا سامنا کرنا پڑے گا، مندرجہ بالا خطرات کو یکسر نظر انداز بہرطور نہیں کیا جاسکتا، بدقسمتی سے حالیہ سیلاب کی وجہ سے متاثرہ علاقوں میں سرکاری طور پر سٹاک شدہ لاکھوں ٹن گندم تباہ ہوئی اس کے ساتھ ساتھ دیہی علاقوں کے کاشتکاروں کی وہ محفوظ شدہ گندم بھی برباد ہوگئی جو اگلے چند مہینوں کے دوران ان کے خاندانوں کی ضرورت پوری کر سکتی تھی۔اندریں حالات عالمی برادری اور خصوصاً بڑے ترقی یافتہ ممالک کو سنجیدگی اور ذمہ داری کے ساتھ اصلاح احوال کے عمل میں پاکستان کا ساتھ دینا ہوگا، موجودہ حالات میں بیرونی قرضوں کو ری شیڈول کرنے اور بعض قرضوں کی معافی پر بھی غور کیا جانا چاہئے، سیلاب سے پاکستانی معیشت کو ابتدائی تخمینے کے مطابق 30ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے، نقصان کے اس اندازے کی خود اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بھی حالیہ دورہ پاکستان کے دوران تائید کرچکے ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ عالمی برادری انسانیت اور انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق پاکستان کے نقصان کی تلافی کے لئے بروقت اقدامات کرے تاکہ صورتحال مزید نہ بگڑنے پائے ہم دیگر قوتوں کے ساتھ حکومت اور ہم وطنوں سے درخواست ہی کر سکتے ہیں کہ وہ ان نازک حالات میں متاثرین سیلاب کو مایوسیوں کا شکار نہ ہونے دیں۔

مزید پڑھیں:  عسکریت پسندوں سے مذاکرات؟