غلطیاں اور صحافت کا زرد سورج

بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ ادارتی صفحہ پرکسی غلطی اورسہو کی نشاندیہ پرمبنی کوئی پیغام اور مراسلہ ملا ہو آج جو پیغام ملا ہے وہ ان کی غلطی اور سہو کے بارے میں ہے جو ادارتی شعبے کے نگران و مرتب ہیں ادارے کی سرخی تھی کجا کارے کند۔۔ اس کجا کی جگہ چرا کارے کند عاقل کہ باز آید پشیمانی ہونا چاہئے تھا یعنی کجا درست نہیں چرا کا لفظ درست تھا۔ فارسی محاورے اور مقولہ کوسمجھنا ہر کسی کا کام نہیں اور استعمال کرنے والے بھی بہرحال اچھا خاصا علم رکھتے ہیں بہرحال انسان سے غلطی ہو جاتی ہے پیغام پر میں نے عزیز بھائی سے بات کرکے حسب عادت اسے چیک کرنے کی بات کی تو آگے سے مسکرا کر جواب دیا گیا باجی گل چیک کرنے کی ضرورت نہیں مہربان قاری نے درست کھچائی کی ہے ہم لکھنے والے ہر وقت دوسروں پر نکتہ چینی کرتے ہیں لیکن اس پر بڑادل رکھتے ہیں کہ کوئی ہماری بھی غلطی کی نشاندہی کرے تو خوش ہوتی ہے کہ کسی نے ہماری بھی اصلاح کی اس صفحے پر لکھنے والے سبھی کالم نگار قد آور اور قابل احترام ہیں ‘شعر و شاعری ادب نشر و اشاعت ‘صحافت ‘ انجینئرنگ ‘ ا نسانی حقوق ‘ کرنٹ افیئر غرض ہر شعبے کے تجربہ کار افراد کا گلدستہ ہیں ایک محترم کالم نگار کی تو اردو تحریر دیکھ کر لگتا ہے کہ موصوف سے سہو ہو گئی ہے مگر ان کی املا اور الفاظ کے استعمال کو لغت میں دیکھ لیں تو ان کا املا درست اور مستعمل غلط العام کے زمرے میں آتا ہے یقینا لکھتے ہوئے اور پڑھتے ہوئے سہو ہو جاتی ہے الفاظ کا چنائو ہو یا پھر پروفنگ کی غلطیاں سہو اور غلطی کا پورا پورا امکان رہتا ہے اور اصلاح کے لئے بھی ہم آمادہ رہتے ہیں۔کوئی اس مہربان قاری کی طرح توجہ دلائے تو ۔ ویسے اخبارات روز چھپتے ہیں ایک محدود اور مقررہ وقت کے اندر کام نمٹانے ہوتے ہیں ایسے میں تعجیل فطری امر ہے پھر کام کرتے ہوئے فون آنا اور کوئی ضروری کام پیش آنے سے تسلسل کا ٹوٹنا اور واپسی پر دو تین چار سطریں چھوڑ کراس سے آگے بڑھنا پھر کوئی ذہنی دبائو کوئی مشکل کوئی گھریلو کام اور پریشانی غرض ان تمام مشکلات اور ماحول میں کام ہو تو غلطی کی گنجائش بڑھ جاتی ہے پھر سٹاف کی چھٹی کام کا بوجھ بڑھانے کا سبب بنتا ہے خاص طور اداریہ و شذرات روز لکھنے ہوتے ہیں اور مقررہ وقت میں اٹھارہ سو الفاظ سوچنے لکھنے اور جملہ لوازمات ساتھ میں پوری کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ایسے میں سہو ہوجاتی ہے کبھی کام کی کثریت سے اکتاہٹ بھی ہوتی ہے دیگر بہت سارے عوامل اور ماحول بھی کام پر اثر انداز ہوتے ہیں اور ذہنی یکسوئی متاثر ہو جاتی ہے پروف کی غلطی کو تو صحافتی دنیا میں غلطی تسلیم کرنے کی بجائے کہا جاتا ہے کہ تعلیم یافتہ قارئین کے لئے یہ کوئی غلطی نہیں بلکہ وہ خود ہی سمجھ جاتے ہیں بعض اوقات پروف کی غلطی نہ بھی ہوتو کمبخت کمپیوٹر صرف دو لفظوں میں سپیس یعنی علیحدگی مٹا کرایسا لفظ بنا دیتا ہے کہ مضحکہ خیز اور ناقابل بیان ہوتا ہے ایک مرتبہ کافی پرانی بات ہے جب میں پشاور میں تھی میرے شوہر نامدار نے مجھے فون کیا کہ یہ آپ نے کیا لکھا ہے یہ تمہارے کالم میں کیا چھپا ہے خیر وہ تو شوہر نامدار تھے پوچھنے پر پڑھ کر سنا دیا اور بتا بھی دیا لیکن اب مسئلہ عزیز بھائی کو بتانے کا تھا تھوڑی دیر سوچتی رہی کہ تمام تر بے تکلفی کے باوجود ان کو آگاہ کیسے کروں خیر میں نے فون ملایا سلام دعا کے بعدمیں نے پوچھا یہ میرے کالم میں کیا غلطی ہوئی ہے انہوں نے الٹا مجھ ہی سے حسب عادت پوچھا کہ بتائیں کیا ہوا ہے میں نے ان کو کہا کہ خود ہی دیکھ لیںانہوں نے کہا کہ باجی گل آپ ہی بتا دیں میرے سامنے اس وقت اخبار موجود نہیں خیر جیسے تیسے میں نے ان کو راضی کیا کہ وہ خود ہی دیکھ لیں انہوں نے اخبار منگوایا اور اخبار کھولا تو میں نے ان کو کہا کہ فلاں سطر اور پیراگراف سے آگے پڑھیں ا نہوں نے پڑھنا شروع کیا آگے ایک جگہ پہنچ کر وہ رک گئے میں نے کہا عزیز بھائی آگے پڑھیں ا نہوں نے کوئی جواب نہ دیا میں نے پھر کہا پھربھی وہ مکمل خاموش رہے شاید فون کے ماوتھ پیس پر بھی انہوں نے ہاتھ رکھ دیا تھا کہ کوئی آواز نہ جائے میں ان کی کیفیت سمجھ سکتی تھی کہ صرف دو لفظوں کے مل جانے سے جملہ کیسا عجیب بن گیا تھا کہ وہ اسے میرے سامنے پڑھنا بھی نہیں چاہتے تھے پھرمیں نے یہ کہہ کر فون بند کر دیا کہ مجھے امید ہے کہ آپ نے جملہ پڑھ لیا ہے خدا حافظ ۔ کافی عرصے بعد ملاقات کے لئے آئے تو باتوں باتوں میں بات بے دھیانی ہی میں اس غلطی کا تذکرہ آیا تو ہم بہن بھائی کافی دیر ہنسے پھر انہوں نے مزید اخباری غلطیاں سنا کر ہنسا ہنسا کر ہلکان کر دیا۔
ہر شعبے میں غلطیاں ہوتی ہیں اور اس کے لطیفے بنتے ہیں اخباری دنیا میں بھی اس طرح کے لطیفے مشہور ہیں اور پھراخباری دنیا میں لطیفے بنانے والے اور ذرا سی چیز کو دلچسپ اور مزاحیہ بنانے کا ملکہ رکھتے ہیں مشرقیات کے ابتدائی سالوں میں یہ جس انداز تحریر میں لکھی جاتی تھی وہ پڑھنے والوں کوآج بھی یاد ہے کیسے کیسے الفاظ کوکیسے معانی پہنا کر لکھاکر اور استعمال کیا جاتا تھا جس طرح دیگر شعبوں کو زوال آیا ہے صحافت پر بھی اس طرح کا زوال آنا فطری امر تھا اب وہ صحافت وہ کالم نگاری نہیں رہی نہ صحافت کا وہ معیار رہاسچی بات تو یہ ہے کہ اب صحافت بھی صحافت نہیں رہی ایسے ایسے لوگ صحافت میں آئے ہیں اور ایسے ایسے صحافی ہیں کہ دل کرتا ہے کہ اسی کوچے کو ہی چھوڑدوں جتنے بھی نظریاتی معروضی اور اصولی صحافت کرنے والوں سے میری بات ہوتی ہے وہ سبھی صحافت کے معیار پر اب تشویش کا اظہار کرتے ہیں صحافتی زبان صحافتی آداب اور معروضیت نام کی چیزیں اب کم ہی رہ گئی ہیں اور ان کا خیال رکھنے والے بہت کم وہ بھی چراغ شب ہیں رفتہ رفتہ صحافت کی دنیا روشن ستاروں سے خالی ہوتی جارہی ہے صحافتی اقدار کا جنازہ نکلنے کو ہے مگر چونکہ یہ عاشق کا جنازہ نہیں اس لئے یہ دھوم سے نہیں نکلے گا بلکہ آہستہ آہستہ گھٹ گھٹ کر ڈوبتے سورج کی طرح غروب ہوگا صحافت کا سورج زرد ہو چکا ہے جبکہ زرد صحافت کا سورج نصف النہار پر ہے یہ جو چراغ سحری ہیں یہ غنیمت ہیں جب ان چراغوں کا تیل ختم ہو گا تو ظلمت شب کی جگہ صبح طلوع نہیں ہو گی بلکہ شب کی تاریکی بڑھ جائے گی اور بس۔
قارئین اپنے مسائل اور پیغامات 03379750639 پر واٹس ایپ ‘ کر سکتے ہیں

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا