تجربہ کاروزیر خزانہ کا امتحان

پاکستان میں سب سے زیادہ بار وزیر خزانہ رہنے والے اور اہم حکومتی مالیاتی و تجارتی شعبوں پر کام کرنے کا وسیع ترجہ رکھنے والے سابق وزیر خزانہ ا سحاق ڈار حلف اٹھا کر ایک مرتبہ پھر وزیر خزانہ بن گئے ہیں۔جن سے جس قسم کی توقعات وابستہ کی جارہی ہیں اور ساتھ ہی جتنی شدت سے ان کا راستہ روکنے کااعلان کیا جارہا ہے یہ ساری صورتحال ان کے لئے کسی بڑے چیلنج سے کم نہیں جس طرح وزیر اعظم شہباز شریف اپنے بھائی نواز شریف کی سرپرستی میں کامیاب وزیر اعلیٰ ثابت ہوئے اور بطور وزیر اعظم وہ مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں اسحاق ڈار ان کی ٹیم کا پہلی مرتبہ حصہ بن کر کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں اور ماضی کی معروضی حالات کے برعکس اس مرتبہ ان کو جو حکومتی انتظامی اور معروضی معاشی حقائق کا سامنا ہوگا اس ماحول میں بھی خود کو کامیاب ثابت کرکے سرخرو ہونا نئے وزیر خزانہ کی سیاسی و حکومتی زندگی کا سب سے مشکل بلکہ مشکل ترین دور ہو گا ان حالات میں کچھ کرکے دکھانا تو جوئے شیر لانے کے مترادف نظرآتا ہے بہرحال وزیر خزانہ پرعزم ہیں۔بہرحال کچھ حالات بھی موافق ہونے لگے ہیں انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر سستا ہونے لگا اور پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں تیزی دیکھی جارہی ہے جبکہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں خاصی کمی آئی ہے صرف یہی نہیں بلکہ اسحاق ڈار آئی ایم ایف سے ازسرنو مذاکرات کے خواہش مند ہیں۔ ان کا رابطہ پہلے ہی غیر رسمی طور پر آئی ایم ایف اور دیگر قرض دینے والے کثیر ملکی اداروں سے ہوچکا ہے۔اس ساری موافق صورتحال میں ان کے لئے موقع ضرور نظر آتا ہے تاہم اس حقیقت سے بھی صرف نظر ممکن نہیں کہ گزشتہ5سالوں میں معیشت میں ہونے والی تبدیلیوں اور بجٹ کی صورتحال کے علاوہ ملکی معیشت کے گورننس کے نظام میں بہت بڑی تبدیلیاں رونما ہوچکی ہیں۔ سب سے بڑھ کر اسٹیٹ بینک کو ایک خودمختار ادارہ بنا دیا گیا ہے اور اسٹیٹ بینک کی خودمختاری اسحاق ڈار کو آزادانہ فیصلے کرنے خصوصا ڈالر کی قدر کو مستحکم کرنے میں آڑے آسکتی ہے۔اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے جمیل احمد کو گورنر مقرر کیا گیا ہے۔ قانونی طور پر اسحاق ڈار نہ تو اسٹیٹ بینک کو کوئی حکم دے سکتے ہیں اور نہ ہی کسی قسم کی رعایت کی سفارش کرسکتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اسحاق ڈار اور اسٹیٹ بینک میں ایک نئی جنگ کا آغاز ہوجائے۔ دراصل اسٹیٹ بینک کے بنیادی کاموں میں بنیادی شرح سود کا تعین بھی ہے مگر اسحاق ڈار اپنی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے کئی مرتبہ اسٹیٹ بینک کے اعلان سے قبل ہی مانیٹری پالیسی کے فیصلوں کا اعلان کرچکے ہیں جس کی وجہ سے اس وقت کے گورنر اسٹیٹ بینک کو شدید ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔اسحاق ڈار کا ہدف آئی ایم ایف کا پروگرام بھی ہے۔ وہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ آئی ایم ایف کا حالیہ پروگرام پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے اور اس میں ایسی شرائط کو مانا گیا ہے جو ملکی معیشت کے لئے درست نہیں ہیں۔ ممکنہ طور پر اسحاق ڈار آئی ایم ایف سے مزید مراعات لینے کی کوششیں بھی کریں گے۔اسحاق ڈار ایسے وقت میں پاکستان واپس آئے ہیں جب عالمی برادری میں سیلاب کے بعد پاکستان کی مدد کرنے کے حوالے سے آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔ موجودہ حکومت نے اقوامِ متحدہ کے اجلاس میں اور اس کے ساتھ سائیڈ لائن ملاقاتوں اور انٹرویوز میں پاکستان کا موقف بیان کیا ہے کہ وہ سیلاب کی صورتحال کی وجہ سے آئی ایم ایف کے معاشی بحالی کے پروگرام پر مزید عملدرآمد نہیں کرسکتا ہے۔ اس حوالے سے اقوامِ متحدہ نے بھی پاکستان کے ساتھ ماحولیاتی انصاف کی بات کی ہے اور عالمی بینک نے تو 2 ارب ڈالر پاکستان میں سیلاب سے متعلق اقدامات کے لئے دینے کا بھی اعلان کردیا ہے۔ توقع یہی ہے کہ اسحاق ڈار کے عہدہ سنبھالنے کے چند ہفتوں میں عالمی برادری کی جانب سے مزید امداد ملے گی جس سے پاکستان کو ڈالرز کی ضرورت پوری ہوسکے گی۔دیکھنا ہے کہ اس بار اسحاق ڈار کس حد تک حکومت کو معاشی اور سیاسی میدان میں کامیاب کراسکتے ہیں اور وہ بھی ان حالات میں جب ملکی معیشت شدید مشکلات کا شکار ہے جس کی وجہ سے مہنگائی کی سطح 27 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ملک میں تیل، بجلی، گیس اور خوردنی اشیا کی قیمتوں میں ہونے والے بے تحاشا اضافہ ہوا ہے ۔صورتحال یہ ہے کہ معیشت اس وقت بدترین صورت حال کا شکار ہے اور مہنگائی کی وجہ سے عام فرد کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے۔لیکن پھربھی اسحاق ڈارسے اس قسم توقع کا اظہار کیا جارہا ہے کہ وہ معاشی صورت حال کو بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور وہ ماضی میں بھی ایسا کر چکے ہیں۔دیکھنا یہ ہے اسحاق ڈار کے پاس کونسا آئوٹ آف باکس حل ہے جس کی بنیاد پر ان سے توقعات باندھی جا رہی ہیں۔ یقینا معاشی حالات اور اقتصادی صورتحال پر قابو پانا کسی جادو کی چھڑی کے استعمال سے ممکن نہیں ہوا کرتا اس وقت حکومت اور عوام دونوں ہی بڑے ریلیف کے متمنی ہیں اور سابق وزیر خزانہ سے دونوں کی ا میدیں وابستہ ہیں کہ وہ معیشت کی سانس بحال کرنے اور عوام کو ریلیف دینے کے لئے ایسے کیا اقدامات کرتے ہیں کہ بہتری کی کوئی صورت شروع ہو جائے۔

مزید پڑھیں:  کہ دیکھنا ہی نہیں ہم کو سوچنا بھی ہے