یہ غیرسنجیدہ ملک!!

کیا کھیل تماشا لگا ہوا ہے ۔ ایک پورا ملک اتنا غیرسنجیدہ ہو سکتا ہے یہ کبھی کسی نے تصور نہیں کیا ہو گا۔سیاست ‘ ملکی امور اور ریاست کا انتظام ایک وقت میں انتہائی سنجیدہ کام تصور کئے جاتے ہیں ‘ ایک وقت سے فلسفی سوچنے سمجھنے والے ‘ اس حوالے سے سوچ بچار کیا کرتے ‘ اس کے حوالہ سے فلسفہ تخلیق کرتے ‘ کتابیں لکھی گئیں اور کتنے ہی معاملات کے بنیادی اصول اور ضوابط طے پائے ۔ انسان ترقی کرتا گیا’ ریاستی انتظام و امور کے حوالے سے اس کی سوچ میں مزید پختگی پیدا ہوتی چلی گئی۔ ارسطو ‘ مکیاولی اور سن زو سے وقت آگے نکل گیا لیکن کبھی اس دائرہ کار سے ریاستیں باہر نہ نکلیں جو بنیاد بن چکا تھا ۔ لیکن اتنے بڑے فلسفیوں نے کبھی یہ نہ سوچا ہو گا کہ کبھی ایک پورا ملک ہوگا جواتنا غیرسنجیدہ اتنا لایعنی ہوگا۔ ایک حکومت ‘ جس میں انتظامیہ ‘ عدلیہ ‘ مقننہ ‘ ریاست کے تمام ادارے ہوں گے لیکن انتظام ایسے چلتا ہو گا کہ سمجھ نہ آئے گی ‘ قانون کے کس احاطے میں کونسا کام سرانجام دیا جا رہا ہے ۔ ایک ایسا ملک جہاں حکومت کی طاقت رکھنے والا ہر ایک جزو صرف اپنے مفادات پر ہی ساری توجہ مرتکز رکھے گا۔ ایک ایسا ملک جہاں اس ملک سے محبت کرنے والوں کی تعداد بس مٹھی بھر ہی ہو گی اور انہیں بھی آہستہ آہستہ یہ بھولنے لگے گا کہ وہ جس سے محبت کرتے ہیں وہ ملک کیسا ہے ‘ کیسا دکھتا ہے اور انہیں اس سے کیسی محبت کرنی ہے ۔ لیکن اس ملک میں یہ کمال ہو گا کہ اس پر کوئی آفت آجائے تو اس ملک کے لوگ ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیتے ہو۔ ایک دوسرے کے ورد کو پنا بنا لیتے ہوں۔ انہیں اپنے حکمرانوں پر یقین نہ ہو لیکن انہیں ایک دوسرے پر اعتماد ہے ‘ یہ دوسروں پر خرچ کرنے والی قوموں میں اگلی صفوں میں کھڑی ہونے والی قوم ہو۔ اس ملک و قوم کا مستقبل کیا ہو سکتا ہے ؟ اگر اس ملک اور قوم کے مزاج کے تضاد کے بارے میں لوگ سوچتے تو کتنے صحیفے لکھے جاتے ‘ کیا بحث ہوتی اس معمے پر غور ہوتا ۔ اب بھی ہوتا ہے لوگ آج بھی اس گتھی کو سلجھانے کی کوششیں کرتے ہیں جب سے میں نے لکھنا شروع کیا ‘ تین دہائیاں ہونے کو آئیں ‘ یہ گورکھ دھندہ کوئی سرا نہیں پکڑاتا۔ میں سوچتی ہوں کہ اب بھی تو کتنے لوگ ہیں جوپاکستان پر تحقیق کرتے ہیں لیکن یہ پاکستان فیکٹر(pakistan Factor) عجب طلسمات ہے ۔ کوئی جادوگری ہے ‘ کوئی معجزہ ہے کوئی فسوں ہے ۔ پاکستان کے سیاست دانوں کودیکھئے ‘ ایک ایک کرکے سب کو کھنگال لیجئے ‘ یہ کبھی کسی کسوٹی پر پورے نہیں اترتے ‘ اکثریت بدعنوان بھی ہے اور بدنیت بھی ‘ جو باقی بچتے ہیں وہ اگربدعنوان اور بدنیت نہیں تو ان میں اہلیت رتی برابر نہیں۔ ان کی سمجھ میں جب تک معاملات آتے ہیں اس وقت تک ملک کا نظام ہی تلپٹ ہو گیا ہوتا ہے ۔ اپنی نااہلی کھلتی ہے تو بد زبانی اور بدگمانی دونوں ہی کا مظاہرہ یوں ہوتا ہے گویا یہ بھی ایک نظام ہے اور اس نظام کے تحت امور مملکت چلائے جا سکتے ہیں۔
اس وقت اپنے ارد گرد ہی دیکھ لیجئے ‘ اس ملک میں ایک وزیر اعظم ہیں اور ان کے ساتھی وہی سارے پرانے جن میں سے ہر ایک پر ہوشربا الزامات ہیں۔ وزیراعظم اپنے سزایافتہ بھائی کو امور مملکت میں شامل رکھتے ہیں۔ ہر بات میں دنیا کو دکھا کر مشورہ ہوتا ہے ‘ اس مشورے پر اپنا سر پیٹ لینے کو دل کرتا ہے کیونکہ اسی ملک کی عدالتوں نے انہیں مجرم قراردے کر وزارت عظمیٰ سے فارغ کر دیا تھا ۔ اس جماعت کے قابل قدر ساتھی بھی بدعنوانی کے سارے تمغے سجائے پھرتے ہیں ۔ ایک سے ایک کمال شخصیت ہیں اور پھر وزیر اعظم صاحب کی بھتیجی ہیں جن کے پاس کوئی عہدہ نہیں ‘ وہ صرف شو پیس ہیں۔ ان کے داماد کے کاروبار سے لے کر خود ان کے فارغ وقت کی مصروفیت تک سب کچھ ہی امور سلطنت میں شامل ہے ‘ اور پاکستان اس سب کی قرار واقعی قیمت ادا کر رہا ہے ‘ اور پھر اپوزیشن ہے ‘ وہ بھی طلسم ہوشربا ہے ۔ جب وہ حکومت میں تھے تب بھی خود کو اپوزیشن میں سمجھتے تھے ۔
عمران خان ایک بڑے ایماندار آدمی ہیں ‘اور ان کی ٹیم انتہائی نااہل ہے ‘ ان کی نااہلی میں ہر قسم کا شک و شبہ ان کے گزشتہ دور حکومت میں دور ہوچکا ہے لیکن یہ سب چونکہ بزبان خود ایماندار تھے اس لئے ان کی نااہلی اور بدعنوانی کا مل کربھی کوئی تذکرہ نہیں۔ سونے پہ سہاگہ کہ زبان ایسی کہ ملکی سیاست پر کسی انڈین ڈرامے کا گمان ہوتا ہے ۔ سازش ہی سازش ‘ مسلسل بنے ٹھنے لوگ ‘ مسلسل دھائیں دھائیں کی آوازیں ‘اور سو قسطوں کے بعد بھی کردار اسی منظرمیں اسی کمرے میں کھڑے ‘ وہی بات کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ بدزبانی ہے کہ حد سے بڑھ چکی ہے ‘ اور اس سب سے اس ملک کے اکثر لوگ لاتعلق رہنا چاہتے ہیں ۔ وہ منہ پھیر کر اپنے مسائل میں گم ہیں ان سے نہ بجلی کے بل دیئے جاتے ہیں نہ پٹرول کی قیمت برداشت ہوتی ہے ‘ نہ گندم کے نرخ ان کی قوت خرید کی گرفت میں ہیں۔ عمران خان جلسہ کریں یہ وہاں چلے جاتے ہیں ‘ مریم نواز بلائیں یہ وہاں پہنچ جاتے ہیں ۔ ان کے لئے سیاسی جلسے میلے ٹھیلے ہیں اور اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ اس ملک کے سیاست دان سنجیدہ نہیں اس ملک کے عوام سنجیدہ ہو نہیں سکتے کیونکہ انہوں نے انتہائی سنجیدگی سے تبدیلی کی جتنی بھی کوشش کی ‘ سب رائیگاں گئی ‘ ملک میں دوائوں کا خرچ بڑھتا جارہا ہے ‘ شہروں کے بیچوں بیچ کوئلے سے بجلی بنانے کے کارخانے لگائے گئے اور اس سب کی کثافت کوکہاں اور کس طور تلف کیا جاتا ہے ۔ تلف کیا جاتا بھی ہے یا نہیں ‘ اس حوالے سے کسی کوکوئی علم نہیں۔ لوگوں میں کینسر بڑھ رہا ہے یہ کوئی ذکر تک نہیں کرتا۔ ہاں سینٹ کے وقعہ سوالات میں یہ ذکر ضرور ہوا کہ لوگوں میں پریشانی اور سٹریس کے باعث شوگر کے مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے ۔ لیکن اس ذکر سے کسی کوکوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ ملک اپنی غیرسنجیدگی کے باوجود بھی زندہ ہے اور یہی اس کا کمال ہے ۔

مزید پڑھیں:  عسکریت پسندوں سے مذاکرات؟