آڈیو لیکس کس کس کے گھر جائے گا یہ سیلاب بلا ؟

آڈیو لیکس کی تحقیقات کیلئے وفاقی وزیر داخلہ کی سربراہی میں کمیٹی کے قیام پر پھبتی کستے ہوئے سابق وزیر سائنس و ٹیکنالوجی اطلاعات اور قانون فواد حسین چوہدری بولے ”رانا ثنااللہ کو آڈیولیکس کے اسپیلنگ ہی نہیں آتے اس نے کیا کرنا ہے ”سائنس اور اطلاعات کے شعبوں میں ” اعلی تعلیم یافتہ ”فواد چوہدری کو پھبتی سجتی بھی ہے اسی کی تو کمائی کھارہے ہیں وہ ۔ چلیں اصل موضوع پر بات کرتے ہیں ۔ وزیراعظم ہائوس کی خفیہ ریکارڈنگ اور آڈیو لیکس کے بھونچال سے پیدا ہوئی صورتحال تشویشناک تو ہے ہی مگر ان حالات میں سلگتے ہوئے سوالات سے صرف نظر کی بجائے سنجیدگی کے ساتھ عوام کو مطمئن کیا جانا ازبس ضروری ہے۔ اہم ترین سوال یہی ہے کہ محفوظ ترین سکیورٹی کے ہوتے ہوئے یہ سب کیسے ہوا۔ اندرونی سہولت کاری یا بیرونی عناصر کا”کسی تصوراتی ازلی دشمن”کے تعاون سے پاکستان کو نیچا دکھانے کا منصوبہ جس نے سکیورٹی میں موجود کجیوں کا فائدہ اٹھایا؟ آڈیو لیکس کے معاملے پر غوروفکر کے لئے بدھ کو وزیراعظم کی صدارت میں ایک اہم اجلاس بھی منعقد ہوا ۔ تحقیقات کے لئے جے آئی ٹی قبل ازیں تشکیل دی جاچکی ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کہتے ہیں ابتدائی تحقیقات میں ٹھوس ثبوت ملے ہیں مرکزی کرداروں تک رسائی ہوجائے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر وزیراعظم ہائوس میں ڈیوائس لگی ہوئی ہیں تو یہ بہت سنجیدہ معاملہ ہے۔ وزیراعظم کے سیکرٹری اور میرا فون بھی ہیک ہوسکتا ہے۔ ادھر سابق وزیر قانون و اطلاعات فواد چودھری نے یہ دعوی کیا ہے کہ حکومت ہیکروں سے ڈیٹا خریدنے کے لئے بات چیت کررہی ہے۔ چند سنجیدہ فکر لوگوں نے بعض حساس تنصیبات کی سائبر سکیورٹی پر بھی سوالات اٹھائے ہیں۔ ہر دو سوالات بہرطور جواب طلب ہیں۔ لیپاپوتی کی بجائے لوگوں کو مطمئن کیاجانا چاہیے۔ ڈارک ویب پر جن دو آڈیوز کی گفتگو سنائی گئی اس آڈیو لیکس اور گفتگو پر سیاست کرنے یا تھڑدلے پن کو راضی کرنے کی بجائے حکومت مخالف طبقات بالخصوص سابق حکمران جماعت تحریک انصاف کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ اگر ہیکروں کا دعوی درست ہے تو پھر فوری طور پر یہ کہنا سمجھنا محض خام خیالی ہی ہے کہ آڈیو لیکس صرف پچھلے چند ماہ کی ہیں کیونکہ ہیکرز نے ایک آڈیو عمران خان کی بھی ڈارک ویب پر نشر کردی ہے ۔ غور طلب امر یہ ہے کہ اگر وزیراعظم ہائوس ہی اتنا غیرمحفوظ ہے کہ اس میں ہونے والی گفتگو یا ٹیلیفونک رابطوں کی گفتگو کی ریکارڈنگ ہوسکتی ہے تو پھر دیگر مقامات کے محفوظ ہونے کی کیا گارنٹی ہے؟ اسی طرح اس سوال کو بھی نظرانداز کرنا بہت مشکل ہے کہ اگر یہ سب ایسا ہی ہے جیسا کہ ہیکر دعوی کررہے ہیں تو پھر وزیراعظم ہائوس جیسے غیرمحفوظ مقام پر قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس کیوں بلایا گیا کیا بہتر نہ ہوتا کہ اس اہم نوعیت کے اجلاس کے لئے کسی اور جگہ کا انتخاب کرلیا جاتا اور جب تک وزیراعظم ہائوس کے محفوظ ہونے کا اطمینان نہ ہوجائے وزیراعظم ہائوس میں سرگرمیاں محدود کردی جائیں؟
اس بات کا بھی برا نہیں منایا جانا چاہئے کہ وفاقی حکومت ، پالیسی ساز اور خفیہ ایجنسیاں کیسے اس امر کی گارنٹی دے سکتے ہیں کہ وزیراعظم ہائوس میں قومی سلامتی کے حوالے سے منعقد ہونے والا اجلاس ہر طرح سے محفوظ رہا ہوگا۔ یہ بدقسمتی ہی ہے کہ ہیکرز نے آڈیو ڈارک ویب کے نیلام گھر میں فروخت کے لئے پیش کردی ہیں کوئی بھی خریدار ہیکروں کی منہ مانگی رقم دے کر یہ آڈیوز خرید سکتا ہے اس میں دوست دشمن کی تمیز یقینا نہیں ہوگی کیونکہ ہیکرز کا مقصد زیادہ سے زیادہ دولت کا حصول ہے انہیں اس سے غرض نہیں ہوگی کہ خریدار کون ہے۔ ڈارک ویب پر جو دو آڈیو پیش کی گئیں ان میں سے ایک میں وزیراعظم کی بھتیجی مریم نواز کے داماد کے پاور ہائوس کے لئے بھارت سے مشینری خریدنے کے معاملے سے متعلق کچھ باتیں ہیں اور دوسری میں سابق حکمران جماعت پی ٹی آئی کے مستعفی ارکان قومی اسمبلی کے استعفوں کی منظوری کے علاوہ مستعفی ہونے والے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی کارکردگی پر بات چیت اور اسحق ڈار کو یہ ذمہ داریاں دینے پر تبادلہ خیال ہے۔ گو وزیرداخلہ یہ کہہ رہے ہیں کہ دونوں آڈیوز میں ایسی کوئی بات نہیں جو قانون کی گرفت میں آتی ہو لیکن یہ تو حقیقت ہے کہ دونوں آڈیوز نے سکیورٹی اور خصوصا سائبر سکیورٹی کے حوالے سے متعلقہ اداروں کے دعوئوں کو خاک میں ملادیا ہے۔ یہ عرض کرنا غلط نہ ہوگاکہ اس سارے معاملے کی تحقیقات کے دوران بکروں کی بلی دینے اور مٹی پائوں پروگرام پر عمل کرنے کی بجائے اصل مجرموں تک رسائی کے لئے ان سہولت کاروں کو گرفت میں لانا ضروری ہے جن کی وجہ سے یہ بھونچال آیا۔ ہم مکرر اس امر کی جانب متوجہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ اس حساس معاملے کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ حکومت کا فرض ہے کہ عوام کے ذہنوں میں موجود شکوک اور سوالات کا جواب تلاش کرے۔ سکیورٹی اداروں کا فرض ہے کہ وہ اپنی کارکردگی پر اٹھے سوالات کو توہین یا تضحیک سمجھنے کی بجائے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کریں۔ ہماری دانست میں تحمل اور تدبر کے ساتھ دستیاب وسائل سے استفادہ کرکے کی جانے والی تحقیقات سے ان قومی مجرموں کو بے نقاب کرنے میں مدد مل سکتی ہے جنہوں نے پیسے کی لالچ میں قومی سلامتی کو دائو پر لگادیا ہے۔ یہ عرض کرنا بھی نامناسب نہیں ہوگا کہ یہ معاملہ ہمارے ان خفیہ اداروں کے لئے بھی امتحان ہے جن کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے کہ یہ ادارے صرف جنوبی ایشیا میں ہی نہیں بلکہ اپنی مہارت کے باعث دنیا کے بہترین اداروں میں شمار ہوتے ہیں۔ اس امر پر دو آرا نہیں کہ آڈیو لیکس کے معاملے پر روایتی سیاست اصل میں کسی لاعلاج مرض سے کم نہیں سیاسی حلقوں کو یہ بات ذہن نشین رکھنا ہوگی کہ حساس امور پر ٹھٹھہ اڑاتی سیاست اور جملہ بازی سے ذاتی انا کی تسکین تو ہوتی ہے اس سے ملک اور قوم کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ امید واثق ہے کہ آڈیو لیکس کے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے ساتھ مستقبل کے حوالے سے سکیورٹی معاملات کو فول پروف بنانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی جائے گی۔ حرف آخر یہ ہے کہ کچھ حلقے آڈیو لیکس کو ادارہ جاتی کھینچاتانی کا حصہ بتا رہے ہیں ایسا ہے تو یہ بہت ہی افسوسناک بات ہے۔

مزید پڑھیں:  فیض آباد دھرنا ، نیا پنڈورہ باکس