ٹرانس جینڈر بِل پر نظرثانی کی ضرورت

پاکستان اللہ تعالیٰ کے نام پر بننے والی مدینہ کے بعد دوسری ریاست تھی جو کرئہ ارض پر وجود میں آئی۔ہم نے اللہ تعالیٰ سے یہ عہد کیا تھا کہ پاکستان کا مطلب لا اِلہ الا اللہ ہے ہم نے یہ بھی کہا بلکہ پتھر پر لکیر کی طرح لکھا کہ پاکستان کے آئین کی بنیاد قرآن اور سنت پر ہو گی ہم نے یہ بھی لکھا کہ حاکمیت اعلیٰ صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔ ہم نے اس کا نام بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھا اور اس پر فخر بھی کرتے ہیں۔ ہم نے اسلامی اصولوں سے ہم آہنگ 1973 کے آئین کو متفقہ طور پر منظور بھی کیااور ہم بعد میں بھی اس میں وقتاََ فوقتاََ اسلامی ترامیم کرتے رہے اسی آئین میں ہم نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی شق بھی شامل کی اور اس کا سہرا مختلف سیاسی پارٹیوں نے اپنے سر باندھنے کی ہمیشہ کوشش بھی کی ایسی ہی کئی ترامیم اور بھی ہیں۔ میں حکومتوں کی نیتوں پر شک نہیں کر رہی لیکن سچ یہ ہے کہ اس سب کچھ کے پیچھے عوام کا زور ہوتا تھا لیکن نجانے اس بار عوام کیسے بے خبر رہے اور ایک بِل پاس کر کے ایک خاص طبقے کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کی گئی اور وہ بِل تھا ٹرانس جینڈر یعنی درمیانی صنف کا قانون۔اس بِل میں اس صنف یا جنس کو بنیادی حقوق دینے کی بات کی گئی ہے جو یقینا بحیثیت انسان ان کا حق ہے بلکہ دیکھا جائے تو یہ لوگ قابِل رحم بلکہ مظلوم ہیں ان کی مظلومیت کی انتہا یہ ہے کہ بوجوہ ، بلاوجہ یا معاشرتی دبائو کے تحت ان کے اپنے خاندان والے بھی ان کو نہیں اپناتے اور کبھی یہ اپنے فطری رحجان کی وجہ سے خود گھر چھوڑ جاتے ہیں اور کبھی یہ معاشرتی رویوںکی وجہ سے اپنے گھروں سے نکل پڑتے ہیں اور اپنے ہم جنسوں میں جا بستے ہیں۔لہٰذا حکومت کی اس طرف توجہ بہت ضروری ہے تاکہ ان سے منسوب جرائم کا بھی خاتمہ کیا جا سکے۔شاید انہی خیالات و احساسات نے2018میں منظور ہونے والے ٹرانس جینڈر بِل کی بنیاد ی اور اصل خرابی نظروں سے اوجھل کر دی۔ یہ خرابی وہاں ہے جہاں اس کے پہلے باب میں ہی کہہ دیا گیا ہے کہ ایسے لوگ بالفاظ دیگر ایسے مرد اور عورتیں جنہیں پیدائش کے وقت جو جنس قرار دیا گیا اگر اس صنف سے مختلف سوچیں تو وہ عمر کے کسی حصے میں اپنی مرضی سے اپنی جنس کا تعین کر کے نادرا میں نئے اندراج کے ذریعے اپنا نیا شناختی کارڈ حاصل کر سکتے ہیں اور پھر انہیں وہی تمام حقوق حاصل ہوں گے جو اُن کے تعین کردہ جنس کے دوسرے لوگوں کو حاصل ہیں اور یہیں سے بد نیتی اور خرابی کی ابتداء ہو جاتی ہے۔یہاں یہ کہا گیا ہے کہ ”پیدائش پر دی جانے والی جنسی پہچان” جب کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے لہٰذا یہ دی جانے والی نہیں بلکہ قدرتی طور پر حاصل ہونے والی پہچان ہے پھر مزید کہا گیا ہے کہ اس پہچان کو خود اختیاری پہچان سے تبدیل کیا جا سکتا ہے یعنی یہاں کسی طبی یعنی میڈیکل تبدیلی کا ذکر موجود نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ جنس کی تبدیلی کے واقعات پہلے نہیں ہوئے ایسا ہوتا رہا ہے لیکن اس کے لیے خواہشات نہیں طبی معائنہ اور طبی تبدیلی اہم اور ضروری سمجھے گئے ہیں لہٰذا اس پر کسی کو اعتراض بھی نہیں ہوا،لیکن اس بِل کے الفاظ سے بہت سے لوگ غلط فائدہ اٹھا سکتے ہیں بلکہ ایسا کر بھی چکے ہوں گے ۔ 2018 میں اس بل کے پاس ہونے کے بعد سے 2022 تک تقریباً28500 افراد نے نادرا کو ایسی درخواستیں
دیں اور زیادہ قیاس یہی ہے کہ ایسا کرنے والوں میں زیادہ تعداد قدرتی طور پر اس تبدیلی سے گزر رہے ہوں گے لیکن اس میں کچھ ایسے ضرور ہوں گے جو دوسری جوہات کی بنا پر ایسا کرنا چاہتے ہوں گے ا ور ”یہی کچھ لوگ” دوسرے ”کچھ لوگوں” کے لیے من پسند مثال بن کر اپنی تعداد میں اضافہ کر سکتے ہیں اور خرابی اور برائی کی بنیاد بن سکتے ہیں اور جب ایک دفعہ ایک برائی کو قانونی اور آئینی حیثیت مل جائے تو اس کو پھیلنے سے روکنا مشکل تر ہو جاتاہے ۔لہٰذا برائی کو جڑ سے کاٹ ہی لینا چاہئے اور اس بِل میں ترمیم ہو ہی جانی چاہئے ۔ اس بِل کی اسی دفعہ پر ہی اعتراض اٹھایا جا رہا ہے ورنہ تو اس میں اس جنس کو جو دیگر حقوق دیئے گئے ہیں اس پر کسی کو اعتراض نہیں بلکہ اس کی تعریف کی جانی چاہئے کیونکہ اگر ایک انسان ایک معذوری یا
مجبوری کے ساتھ پیدا ہوا ہے تو اس کے ساتھ رحم کا سلوک ہونا چاہئے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے ساتھ ہمدردی کی آڑ میں کچھ دیگر بے راہرو لوگوں کو سہولت دی جائے جیسا کہ کہا جا رہا ہے کہ اس بِل کی آڑ لے کر ہم جنس پرستی جیسے قبیح فعل کو راہ مل سکتی ہے تو ایسا ممکن ہے کیونکہ معاشرے میں کچھ ایسے ناسور ضرور پائے جا سکتے ہیں جو اپنی ذاتی ناجائز خواہشات کو پورا کرنے کے لیے حکومت کی طرف سے دی گئی اس بظاہر کھلی چھٹی کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور ایسا بھی نہیں کہ یہ قبیح فعل اب معاشرے میں نہیں پایا جاتا ہم اس کے وجود سے انکار نہیں کر سکتے تو اگر ان لوگوں کو ایک قانونی راستہ بھی فراہم کر دیا جائے تو پھر اسے کیسے روکا جا سکتا ہے۔ کیا ہمیں یہ غلط فہمی ہے کہ ہم حضرت لوط علیہ السلام کی قوم اور پھر ان پر آئے ہوئے ایک خوفناک عذاب کی کہانی سنا کر ایسے گمراہ لوگوں کو اس گناہ سے روک سکیں گے تو ایسا سوچنا سوائے خوش فہمی کے کچھ نہیں۔ وہ لوگ اس قوم او ر عذاب سے واقف ہی ہیں اور اگر ایک آدھا نہ بھی جانتا ہو تو اس فعل کی غیر انسانی غیر فطری اور غیر اسلامی حیثیت سے تو واقف ہی ہیں لہٰذا بے جا خوش فہمی میں پڑنے کی ادا کاری نہ ہی کی جائے تو بہتر ہے۔جب یہ بِل منظور ہوا تو تب بھی اسے خوش نما بنا کر لوگوں کے سامنے پیش کیا گیا اور یہی وجہ ہے کہ اس پر اُس وقت اس طرح کے اعتراضات سامنے نہیں آئے لیکن جب سینٹر مشتاق احمد خان نے یہ نکتہء اٹھایا اور اس پر بحث چلی تو لوگوں نے اسے پڑھا اور سمجھا اور ان اعتراضات کے وزن اور اثرات کو محسوس کیا اور احتجاج شروع ہوا ۔اس بِل کو اب بھی منسوخ کرنے کی نہیں اس میں ترمیم کی بات کی جارہی ہے بلکہ اس پر مکمل نظر ثانی کی ضرورت ہے اس کے کئی نکات خود اختیاری جنس کے لیے ہیں یعنی زیادہ بات انہیں کی کی گئی ہے جنہوں نے کوئی جنس خود اختیار کی اور قومی شناختی کارڈ میں لکھوائی در اصل پیدائشی خواجہ سرائوں سے زیادہ ایسے لوگوں کی فکر کی گئی ہے جو تبدیلی جنس کرا لیں یا ہو جائے یا خود کو دوسری جنس رجسٹر کر والیں جب کہ مسئلہ تو ان کی بیچارگی کا ہے جو اس معذوری کے ساتھ پیدا ہوئے ہیں نہ کہ ان لوگوں کا جو جنس کی واضح تبدیلی سے گزرے ہیں ۔ یہ ایک حساس موضوع ہے جس کو چھیڑتے ہوئے اس وقت کی حکومت کو بھی اور آج کی حکومت کو بھی انتہائی احتیاط اور چھان بین اور غور و فکر کی ضرورت تھی اور ہے اور یہ آئندہ کے لیے بھی ایک سبق ہے کہ آئین سازی کرتے ہوئے ووٹ کا حصول اور سستی بین الاقوامی شہرت نہیں بلکہ اپنے مذہب اور معاشرے کے اصولوں کو مدِنظر رکھیں۔

مزید پڑھیں:  بجلی کے سمارٹ میٹرز کی تنصیب
مزید پڑھیں:  بھارت کا مستقبل امریکہ کی نظر میں

ایک دفعہ پھر یا دلائوں کہ اس بِل میں ان لوگوں کو دیئے گئے حقوق پر اعتراض نہیں کہ یہ سارے بنیادی انسانی حقوق ہیں جس کا سب سے بڑا علمبردار ہمارا ہی مذہب ہے ۔اعتراض اس بِل میں دیے گئے ان لوگوں کے تعارف یا تعریف پر ہے لہٰذاان بیچارے لوگوں کے جذبات سے مزید نہ کھیلا جائے اور نہ ہی ان کے حقوق کی آڑ میں کسی اور برائی کو قانونی حیثیت دینے کی راہ کھولی جائے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس وقت یہ اثرات ذہن میں نہیں آئے تو یہ اور زیادہ تشویش کی بات ہے کیونکہ قوم کی قسمت کا فیصلہ کرنے والوںکو اتنا بے احتیاط اور کم فہم نہیں ہونا چاہئے اور ایسی چیز پر دستخط کرنے سے پہلے ہزار بار اور ہزار زاویوں سے سوچنا چاہئے ورنہ انہیں قوم کی قسمت کا فیصلہ کرنے کا کوئی حق نہیں۔