قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا

مرزا غالب تو بے چارہ ویسے ہی بدنام تھا جن کے پرزے اڑنے کی خبر رقیبوں نے اڑائی تھی اور جب کچھ نہ بن سکا تو مرزا نوشہ نے ان کے لگائے ہوئے تماشا کو”سانجھے کی ہانڈی ”کی مانند بیچ چوراہے کے پھوڑ کر بھد اڑائی تھی کہ مرزا جی خود بھی اپنا تماشا دیکھنے گئے تھے مگر رقیبوں کے دعوے کے مطابق اڑنے والے پرزے دیکھنے سے محروم رہ گئے تھے ‘تاہم یہاں تو ہر طرف دھول اڑ رہی ہے اور کیا رفیق ‘ کیا رقیب ‘ سب کے بخیئے پرزوں کی صورت اڑتے دکھائی دے رہے ہیں ‘ اب ہر کسی کو اپنی پڑی ہے ‘ اس اڑتی دھول میں چہروں پرپڑنے والی”سیاہی” سب کے لئے پریشان کن ہے ‘ ایک سائفر جسے کوئی مراسلہ قرار دے رہا ہے تو کوئی اسے خط قرار دینے پر مصر اس میں سے ”سازش” نکال رہا ہے ‘ اور سازش کی اس”گیند” پر ڈھٹائی سے (مزید) کھیلنے پرمصر ہے ‘ حالانکہ وہ پہلے ہی جس قدر کھیلنا تھا کھیل چکے ‘ اور جاری ہونے والے آڈیوز کے مندرجات سے جو تصویر کشی ہو رہی ہے اس پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ
شوق ہر رنگ رقیب سروساماں نکلا
قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا
یار لوگ اپنے اپنے طور پر اس ”سیاہ پوش بے چہرہ” کو تلاش کر رہے ہیں جو مزید آڈیوز اور ممکنہ طور پر ویڈیوز جاری کرنے کی ”تڑیاں لگا رہا ہے ‘ کچھ متضاد دعوے بھی سامنے آرہے ہیں کہ ”پندہ پھڑیا گیا” مگر ثبوت کسی بھی ذریعہ سے ہاتھ نہیں آرہے ہیں اور ادھر ایک اور تشویشناک خبرسامنے آگئی ہے کہ جس خط کے چرچے ہو رہے ہیں وہ خط ہی وزیر اعظم ہائوس کے ریکارڈ سے غائب ہو چکا ہے ‘ گویا جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے ‘ اب چاہے کسی کے بھی خلاف کارروائی کی خبریں سامنے آئیں ‘ آخر میں نتیجہ ٹائیں ٹائیں فش ہی کی صورت نکلنے کے خدشات کو رد نہیں کیا جا سکتا اس کے بعد اس محاورے ہی میں پناہ ڈھونڈی جائے گی کہ اب پچھتائے کیا ہوت ‘ جب چڑیاں چگ گئیں کھیت ‘ اور چگے ہوئے کھیت سے صرف مٹی کے کچھ بھی نہیں نکلنے والا ‘ ویسے ان خبروں کے سامنے آنے کو بھی زیادہ مدت نہیں ہوئی جب موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالا تو وزیر اعظم ہائوس کے کونوں کھدروں اور کھڑکیوں ‘ دروازوں کے ساتھ مبینہ تعویز گنڈوں کے خفیہ طور پر لٹکے ہونے کی نشاندی کی گئی تھی ‘ اگر اسی وقت زیادہ ہوشیاری سے کام لیا جاتا اور ”خفیہ مائیکرو فونز اور دیگر جاسوسی آلات” کے کھوج لگانے کی بھی کوشش کی جاتیں توشاید حالات اس نہج پر نہ پہنچتے جن پر اب کف افسوس ملنے کی ”اطلاعات” آرہی ہیں ۔ تاہم جس ہوشیاری ‘ کمال مہارت بلکہ نزاکت سے ” خط” چرانے کی واردات ڈالی گئی ہے اس پر تو مرزا غالب بھی رطب اللسان ہوئے کہ
دیکھو تودل فریبی انداز نقش پا
موج خرام یار بھی کیا گل کر گئی
ایک جانب وزیر اعظم آڈیو لیک کو غیر ملکی سازش کے بیانئے کو چور چور کرنے سے تشبیہ دے رہے ہیں حالانکہ ان کے اپنے ایک آڈیو کے بھی چرچے سب سے پہلے منظر عام پر آئے ‘ تاہم محولہ آڈیو کے اندر الفاظ نے ان کی لاج ضرور کھی کہ وہ اپنی بھتیجی کے حوالے سے کچھ مطالبات کو قانون کے خلاف ہونے کی وجہ سے ایک اہم سرکاری عہدیدار(پرنسپل سیکرٹری) سے اس پر عمل نہ کرنے کی تلقین کرتے ہوئے مریم نواز کو خود سمجھانے کاعندیہ دے رہے ہیں ‘ جبکہ دوسرے آڈیو میں ایک سابق پرنسپل سیکرٹری کی جانب سے سابق وزیر اعظم کو دیئے جانے والے مشورے ملکی قوانین سے کھلواڑ کی صورت سامنے آئے ہیںان دونوں معاملات میں مسئلہ مشوروں کے درمیان بعدالمشرقین کے تناظر میں ملکی قوانین کے احترام اور دھجیاں اڑانے سے کہیں آگے جا کر یہ دیکھنا ہے کہ وزیر اعظم ہائوس کے اندر جاسوسی اور سکیورٹی بریج جیسی تشویشناک صورتحال کیسے اور کیونکر واقع ہوئی۔ تشویشناک امر یہ ہے کہ اگر وزیراعظم ہائوس جیسے انتہائی حساس مقام کی جاسوسی ہوتی رہی ہے تو اس کے نتیجے میں ہمارے کتنے اہم ‘ نازک اور قومی سلامتی کی معلومات کسی بھی دشمن تک یا تو پہنچ چکی ہوں گی یا متعلقہ ”مین ان دی بلیک” یعنی بے چہرہ سیاہ پوش ہیکر یہ معلومات اڑا چکا ہوگا اوروہ کسی بھی وقت پاکستان کے دشمنوں کے ہاتھ لگ سکتی ہیں ‘ خصوصاً دفاع ‘خارجہ امور اور دیگر اہم شعبوں کے حوالے سے وزیر اعظم ہائوس میں ہونے والی گفتگو اور اجلاسوں کی کارروائی ‘ اگرچہ اب یہ دعوے بھی سامنے آرہے ہیں کہ مبینہ ہیکر تک رسائی ہو چکی ہے ‘ اللہ کرے ایسا ہی ہو ۔ تاہم افسوسناک امر یہ ہے کہ ان تمام معاملات کے برعکس ایک شخص اب بھی ڈھٹائی پر اترا ہوا دھڑلے سے کہہ رہا ہے کہ ابھی تو میں نے اس پر کھیلنا ہے گویا اب تک جتنا کھیل ہوتا رہا ہے وہ بقول غالب کھیل لڑکوں کا ہوا دیدہ بنیانہ ہوا ‘کہ بقول خالد خواجہ
لائے ہیں لوگ شہر بچانے کے واسطے
مٹی کا تیل ‘ آگ بجھانے کے واسطے
ان دس ہیل یعنی”اس جہنم میں” کے ٹویٹر ہینڈلر کے حوالے سے بھی اب متضاد خبریں آرہی ہیں یعنی یہ کوئی ایک شخص نہیں ہے ‘ اور اسی وجہ سے ”شخصیات” کی نیندیں اڑنے کی خبریں اڑ رہی ہیں۔ بہرحال اس صورتحال نے پاکستانی سکیورٹی کوجن خطرات سے دو چار کر دیا ہے ان کے ہوتے ہوئے کون غیر ملکی سربراہ یا اعلیٰ عہدیداران پاکستان میں مذاکرات کا رسک لینے پرتیار ہوں گے ‘ یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔
میں مضطرب ہوں وصل میں خوف رقیب سے
ڈالا ہے تم کو وہم نے کس پیچ و تاب میں

مزید پڑھیں:  مزید کون سا شعبہ رہ گیا ہے ؟