یکساںا نتخابی مواقع دینے کا احسن عندیہ

میڈیا میں اس امرکا امکان ظاہر کیاگیا ہے کہ لندن میں شریف فیملی کے ساتھ ایک خفیہ ڈیل کے ذریعے معاملات طے کردئیے گئے ہیں جس میں آئندہ انتخابات میں انہیں عمران خان کی طرح برابری کے مواقع دینے کا معاہدہ کیا گیا ہے۔ذرائع کا کہناہے کہ عمران خان کی ناکام پالیسیوں کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ نے غیر جانبدار رہنے اور تمام سیاسی جماعتوں کو ایک جتناموقع دینے کا فیصلہ کیاہے اس تناظرمیں میاں نواز شریف کو پاکستان میں واپس لانا اور ان کے تمام کیس ختم کرنے پر بھی اتفاق ہوا ہے ملک کے کرتا دھرتا بزنس ٹائیکون اور دیگر شخصیات کے ذریعے نوازشریف سے لندن میں مفاہمت کی بات چلانے کا دعویٰ کیا جارہا ہے جس کی کسی جانب سے تردید نہیں ہوئی ہے اس وقت میاں نواز شریف پر عدالتوں میںتین کیس چل رہے ہیںایون فیلڈ اورعزیزیہ کیس کے علاوہ اقامہ پر نااہلی بھی نومبر تک ختم کرنے کا پلا ن ہے پہلے مرحلے میں اسحاق ڈار کی وطن واپسی اور مریم نواز کی بریت کو اسی سلسلے کی ایک کڑی کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ ن لیگ کیلئے یہ باعث مسرت جبکہ عمران خان کی نظر میں یہ ڈیل ہے جس پر تنقید کی جارہی ہے۔ سیاسی دنیا میں کوئی بھی چیز بعید نہیں سیاسی منظر نامے میں یکے بعد دیگرے تبدیلیوں کے بعض مظاہر ان مقامات اور اداروں سے بھی سامنے آرہے ہیں جن کے فیصلوں پر تنقید نہیں کی جا سکتی کہ پہلے کے تیور اور اب بدلتے تیور ہی ساری کہانی کو سمجھنے کے لئے کافی ہیں مشکل امر یہ ہے کہ وطن عزیز کی سیاست اب تک جن جن محوروں کے گرد گھومتی رہی ہے وہ اگر سیاسی محور نہ ہوتے تو اب تک ملک میں سیاست اور جمہوریت مضبوط ہوچکی ہوتی اور سیاستدانوں کو سہارے کی ضرورت نہ پڑتی تازہ حالات میں بھی نہ تو محور تبدیل ہوا ہے اور نہ ہی سیاستدانوں نے بیساکھیاں اتار پھینکنے کا کوئی سنجیدہ عندیہ دیا ہے ملک کے معاشی حالات اگر دگر گوں نہ ہوتے تو شاید اب تک پرانا تسلسل ہی چل رہا ہوتا بہرحال خوش آئند عندیہ یہ ہے کہ کہ اب بھی اگر غیر سیاسی کردار سیاستدانوں کو یکساں کھیل کا موقع دے کر اگر مکمل طور پر غیر جانبدارانہ کردار اپنائیں تو یہ غنیمت ہو گی اس کے لئے ملک کی اکثر سیاسی جماعتیں اپنے تجربات اور بصیرت کے باعث ذہن بنا چکی ہیں مگر اب بھی بعض عناصر کی سعی ہے کہ انہیں خواہ مخواہ گود لیاجائے لندن میں اگر کوئی یقین دہانی اور ڈیل مطلوب ہے وہ اگر یکساں کھیل کے موقع کی یقین دہانی ہے تو اسے ڈیل قرار نہیں دیا جا سکتا بلکہ یہ اصولی بات ہے اور اگر علاوہ ازیں کوئی معاملہ ہے تو اسے غلطی ہی قرار دیا جائے گا۔ وطن عزیز کی سیاست اس وقت ہی سنجیدہ کروٹ لے سکتی ہے کہ جب سیاستدان سنجیدہ انداز میں عوامی مقبولیت کے بل بوتے پر انتخاب لڑنے پر آمادگی کا اظہار کریں اور عملی طور پر اس پر عمل پیرا ہوں دوسری کوئی بھی صورت اصولی کہلائی جا سکتی ہے اور نہ ہی ایسا کرنا سیاست و جمہوریت اور استحکام حکومت کے حوالے سے بہتر ہوگا۔
دیر آید درست آید
سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اپنے بیان پر معافی مانگنے کے لیے خاتون ایڈیشنل جج زیبا چوہدری کی عدالت پہنچے تاہم ان کی جج سے ملاقات نہیں ہوسکی۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے خاتون جج کے دفتر کے عملے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں معذرت کرنے آیا تھا۔اگرچہ بعض عناصر چیئرمین تحریک انصاف کے اس عمل کو بھی دیگر معنی پہنا کر استہزاء کا ذریعہ بنا رہے ہیں لیکن قطع نظر اس کے کہ انہوں نے توہین عدالت میں سزا سے بچنے کے لئے یہ راستہ اختیار کیا جو بھی وجہ ہو بہرحال یہ ایک مثبت فعل ہے جس کی تحسین اس لئے ہونی چاہئے کہ اپنی غلطی کا اعتراف اور ندامت کا اظہار جب بھی ہو قابل قبول اور باعث تحسین امر ہے ۔ سابق وزیراعظم اس امر کے پابند نہ تھے کہ وہ خاتون ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت جا کر ان سے معافی طلب کرتے اس کے لئے عدالت میں بیان حلفی جمع کرانا کافی ہوتا بہرحال ان کے اس اقدام سے ان کا کیس مضبوط ہوا اور اب اسے عدالت میں ایک ٹھوس دلیل اور عملی طور پر ندامت کے مظاہرے کے طور پر پیش کیا جائے گا جس سے قطع نظر عمران خان کو اب اس امر کا احساس ہونا چاہئے کہ چراکارے کند عاقل کہ باز آید پشیمانی اب ان کوبولنے سے قبل ذرا غور کرنے اور جذبات کی رو میں بہہ جانے سے احتراز کا رویہ اپنانا چاہئے تاکہ خواہ مخواہ کے الجھائو اور تنقید کی نوبت نہ آئے علاوہ ازیں بھی سنجیدگی ومتانت ایک بہتر راستہ ہے جسے اختیار کرنا ہی بہتر حکمت عملی اور موزوں و مناسب امر ہوگا ۔

مزید پڑھیں:  منفی ہتھکنڈوں سے اجتناب کیجئے