اختلافات میں اعتدال کی راہ

اعتدال کی راہ اپنانے میں بہت سے مسائل کا حل موجود ہے تاہم بدقسمتی کی بات ہے کہ اکثریت افراط و تفریط کا شکار ہو کر باہم دست و گریبان ہے۔ مشرکین مکہ نے مدینہ میں مسلمانوں سے جنگ کرنے کے لیے لشکر مہیا کرنا شروع کیا۔ وہ اتنا بڑا لشکر لے کر آئے کہ آج تک عرب کے کثرت تعداد و اسلحہ کے لحاظ سے ایسا لشکر نہیں دیکھا تھا۔ مسلمانوں نے خندق کھودی جسے پار کرکے مشرکین مدینہ میں داخل نہ ہو سکے۔ چنانچہ خندق کی پرلی طرف خیمہ زن ہو گئے۔ مدینہ میں یہود کا قبیلہ بنوقریظہ تھا جو مسلمانوں پر حملے کے منتظر رہا کرتے تھے۔ یہ اُن کے لیے سنہری موقع تھا۔ وہ مشرکین کی مدد کو آئے اور مدینہ میں لوٹ مار مچائی ۔ مسلمان خندق پر پہرا دے رہے تھے۔ مدینہ میں آ کر قریظہ سے نمٹنا اُن کے لیے ممکن نہیں تھا۔ مسلمانوں کے لیے یہ دن بڑے کٹھن تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے تیز ہوا بھیجی جس نے دشمن کی صفیں الٹ دیں۔ وہ رات کے اندھیرے میں شکست خوردہ ہو کر بھاگے۔ صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی گھر گئے’ اسلحہ اتارا اور غسل کیا۔ ظہر کے وقت جبریل آئے اور گھر سے باہر کھڑے ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آواز دی۔ آپ گھبرائے ہوئے اُٹھے اور جلدی سے باہر آئے۔ جبریل نے کہا :
”یارسول! کیا آپ نے اسلحہ اتار دیا؟”
فرمایا:”جی ہاں۔”
جبریل نے کہا: ”فرشتوں نے تو ابھی ہتھیار نہیں رکھے۔ میں بھی اُن لوگوں کے تعاقب سے لوٹا ہوں۔ ہم اُن کے تعاقب میں ”حمراء الاسد” تک گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو بنو قریظہ کی طرف چلنے کا حکم دے رہا ہے۔ میں بھی اُنہی کی طرف جا رہا ہوں اور اُنہیں ہلا کر رکھ دوں گا۔”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منادی کو حکم دیا’ اُس نے لوگوں میں اعلان کیا:
”جو سن رہا ہے اور مطیع ہے وہ عصر کی نماز بنو قریظہ ہی میں پڑھے۔”
یہ سن کر لوگ اسلحہ کی طرف لپکے اور قبیلہ بنو قریظہ کی جانب چل پڑے۔ راستے میں عصر کی نماز کا وقت ہو گیا۔ کچھ لوگوں نے کہا:
”ہم عصر کی نماز بنوقریظہ ہی میں پڑھیں گے۔”
بعض نے کہا: ”ہم ابھی نماز پڑھیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ نہیں چاہا تھا۔”
(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مطلب یہ تھا کہ ہم فوراً چل پڑیں اور جلدی کریں)
چنانچہ کچھ لوگوں نے وہیں راستے میں نماز پڑھی اور بعض نے مؤخر کرکے بنوقریظہ میں عصر کی نماز ادا کی۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتایا گیا تو آپ نے کسی سے کوئی تعرض نہ کیا’ پھر آپ نے بنو قریظہ کا محاصرہ کر لیا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو فتح عطا فرمائی۔
جو اختلاف فروعی مسائل اور مبنی برحق ہو ‘ اُس کے لیے اپنے دل و دماغ کو کھلا رکھیں ۔ کسی فریق کو ملامت نہ کریں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عمرو بن العاص کو غزوۂ ذات السلاسل کے لیے شام کی طرف روانہ کیا۔ عمرو بن العاص وہاں پہنچے تو دشمن کی بڑی تعداد دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیغام بھیجا اور کمک طلب کی۔ آپ نے ابوعبیدہ بن جراح کو اُن کی مدد کو بھیجا۔ ابوعبیدہ کمک کے لیے روانہ ہونے والے اس لشکر کے امیر تھے، جس میں کِبار مہاجرین بھی شمال تھے۔ روانگی کے وقت آپ نے ابوعبیدہ سے فرمایا:
”آپ دونوں آپس میں اختلاف مت کرنا۔”
ابوعبیدہ روانہ ہوئے۔ شام کے علاقے میں عمروبن العاص کے پاس پہنچے تو انہوں نے ابوعبیدہ سے کہا:
”آپ صرف کمک کے طور پر آئے ہیں۔ لشکر کا سپہ سالار میں ہوں۔”
ابوعبیدہ بولے :”نہیں’ میں اپنے دستے کا سپہ سالار ہوں اور آپ اپنے دستے کے سپہ سالار ہیں۔”
ابوعبیدہ نرم خو اور صلح جو آدمی تھے۔ عمرو نے اُن سے کہا: ”بلکہ آپ میری کمک ہیں۔”
اس پر ابوعبیدہ نے کہا: عمرو بھائی! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا تھا کہ آپ دونوں اختلاف نہ کرنا، اس لیے آپ میری بات نہیں بھی مانیں گے تو بھی میں آپ کی بات مانوں گا۔”
عمرو بولے:”پھر میں آپ کا سپہ سالار ہوں ۔ آپ صرف میری کمک ہیں۔”
ابوعبیدہ نے یہ بات تسلیم کر لی اور عمرو بن العاص نے آگے بڑھ کر لوگوں کو نماز پڑھائی۔ جنگ اختتام پذیر ہوئی تو سب سے پہلے عوف بن مالک مدینہ پہنچے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملے۔ آپ نے اُن سے جنگ کا احوال دریافت کیا۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ابوعبیدہ اور عمروبن العاص کے درمیان ہونے والے گفتگو کے متعلق بتایا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
”اللہ ابوعبیدہ بن جراح پر رحم کرے۔” (دلائل النبوة بیہقی)
حضرت ابوعبیدہ کو زبانِ نبوت سے یہ دعا کیوں ملی؟ آپ اور ہم بھی باہمی اختلافات سے بچ کر اسی دعا کے مستحق بن سکتے ہیں۔
٭٭٭٭

مزید پڑھیں:  برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر؟