اسحق ڈار کی آ مد

گزشتہ برسوں میں روپے کی تباہی کے نتیجے میں مہنگائی ہوئی اور شرح سود تیرہ سے چودہ فیصد تک پہنچ گئی۔ سیاست ایک طرف رکھیں ملک کو آگے جانے دیں ، پہلی ترجیح کرنسی میں استحکام اور دوسری مہنگائی پر قابو پانا ہے۔ نو منتخب وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ صائب ہیں ، انہوں نے ایک ایسے وقت میں وزارت خزانہ کا قلمدان سنبھالا ہے، جب پاکستان میں ملکی معیشت شدید مشکلات کا شکار ہے جس کی وجہ سے مہنگائی کی سطح27 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ ملک میں تیل ، بجلی ، گیس اور خوردنی اشیا کی قیمتوں میں ہونے والے بے تحاشا اضافے کی وجہ سے موجودہ حکومت تنقید کی زد میں ہے ، تو دوسری جانب آئی ایم ایف پروگرام کا حصہ ہونے کے باعث اسے سخت معاشی فیصلے کرنے پڑے ہیں۔معیشت اس وقت بد ترین صورت حال کا شکار ہے اور مہنگائی کی وجہ سے عام فرد کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے۔ موجودہ اتحادی حکومت کے پانچ ماہ میں معاشی طور پر لوگوں کو کوئی ریلیف نہیں مل سکا اور اس کے ساتھ تجارتی اورکاروباری حلقے بھی تشویش کا شکار ہیں۔ ملکی معیشت کی زبوں حالی کسی سے ڈھکی چھپی ہوئی نہیں۔ ڈالر اور روپے میں زبردست مقابلہ جاری ہے، روپیہ بڑی مشکل سے اپنی قدر بچانے میں مصروف ہے۔ پاکستان کی معیشت خطرات میں گھرتی چلی جا رہی ہے، روپے کی قدر میں کمی، معیشت کی شرح نمو، ٹیکسوں کی وصولی، بچتوں و سرمایہ کاری کی شرحیں ، برآمدات، غذائی قلت، بیروزگاری اور غربت کی صورتحال گزشتہ برسوں اور خطے کے دوسرے ممالک کے مقابلے میں خراب ہوتی چلی جا رہی ہے۔ لوگ مہنگائی، گیس، بجلی اور پٹرولیم کے بحران کی وجہ سے پریشان ہیں، انہیں ملک کی کامیاب بیرونی پالیسی سے زیادہ اپنے مسائل کے حل کی فکر ہے جس پر توجہ بہرحال وزیراعظم میاں شہباز شریف کو ہی دینا ہوگی۔ آئی ایم ایف کے مطابق رواں مالی سال مہنگائی کی شرح 20فیصد رہنے کا امکان ہے حالانکہ رواں ہفتے یہ شرح40فیصد سے زائد ہے۔ آئی ایم ایف نے مزید کہا ہے کہ خوراک اور ایندھن کی قیمتوں میں عالمی سطح پر اضافہ ہوا ہے اور ان کی کمی کا سامنا بھی ہے۔اس لیے پاکستان اس کے اثرات سے نہیں بچ سکتا۔ عالمی مالیاتی ادارے نے جس وقت اپنی یہ رپورٹ مرتب کی اس وقت پاکستان میں سیلاب کی صورت حال موجود نہیں تھی، برے معاشی حالات میں سیلاب سے ہونے والی تباہی نے ہماری رہی سہی کمر بھی توڑ دی ہے۔ ملک میں ساڑھے تین کروڑ افراد سیلاب سے براہ راست متاثر ہوئے ہیں، لاکھوں گھر تباہ ہو گئے اور انفرا اسٹرکچر ختم ہو کر رہ گیا ہے، فصلیں اور مویشی بھی باقی نہیں رہے اور جو خوراک کا بحران ہمیں پہلے ہی اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے تھا، اس میں مزید شدت آ جائے گی۔اسحاق ڈار ملک میں ایسے وقت میں تشریف لا چکے ہیں جب ملک کو اندرون و بیرون دونوں سطح پر ان گنت مالی و اقتصادی چیلنجز درپیش ہیں۔ پاکستان کی شدید مشکل معیشت کو اگر کوئی سنبھال سکتا ہے تو وہ اسحاق ڈار ہی ہیں۔ دوسری جانب اگر دیکھا جائے تو ملک میں تین کروڑ سے زائد لوگ اس وقت سیلاب سے متاثرہ اور فوری ریلیف کے منتظر ہی نہیں حقدار بھی ہیں۔ مہنگائی اور بے روزگاری کے بحرانوں نے الگ سے ملک کے عوام کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے یہ اور اس طرح کے دیگر چیلنجز کا اب نئے وزیر خزانہ کو سامنا ہو گا۔ تاہم حوصلہ افزا امر یہ بھی ہے کہ ڈار کی واپسی کے ساتھ ہی ان دو دنوں میں اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت یکایک دس روپے چالیس پیسے کم ہو گئی ہے، اسٹاک ایکسچینج میں گہما گہمی نظر آنے لگی اور روپے کی قدر میں اچانک اضافہ ہو گیا۔ اپریل2022 میں سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد وزیراعظم شہباز شریف کی سربراہی میں قائم ہونے والی حکومت میں وزیر خزانہ کا قلمدان مفتاح اسمٰعیل کو سونپا گیا، پانچ ماہ تک جنہوں نے پوری جانفشانی کے ساتھ ذمے داریاں نبھائیں اور بلاشبہ وہ مشکل فیصلے کیے ، جس کے لیے شاید ان کے علاوہ کوئی اور تیار ہوتا، اس کا کریڈٹ انہیں ضرور ملنا چاہیے۔ موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف نے سابق وزیراعظم نواز شریف سے صلاح مشورے کے بعد اسحاق ڈار کو پھر سے وزیر خزانہ بنانے کا فیصلہ کیا کیونکہ نواز شریف کے زمانہ اقتدار میں وہ ہی وزیر خزانہ کے عہدے پر فائز رہے۔ علاوہ ازیں جب 2013میں پاکستان کی معیشت مشکلات کا شکار تھی تب بھی اسحاق ڈار نے اچھی کارکردگی دکھائی تھی۔ اسحاق ڈار کی نظر عوام کی اور معیشت کی مشکلات دونوں پر ہوتی ہے اور ان کے اس عہدے کو سنبھالنے سے سب سے زیادہ پولیٹیکل اکانومی کا فائدہ ہو گا، اس کے ساتھ سیاسی لحاظ سے نواز لیگ فائدہ اٹھائے گی۔ پاکستانی عوام کی جانب سے نئے وزیر خزانہ سے اس توقع کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ وہ معاشی صورت حال کو بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور وہ ماضی میں بھی ایسا کر چکے ہیں۔ حکومت کو دو کام درپیش ہیں جب کہ مشکل یہ ہے کہ ایک امریکی ڈالر کے مقابلے میں وہ مقامی کرنسی کو نیچے لانا ہے اور دوسرا مالیاتی اسپیس یعنی گنجائش پیدا کی جائے اس آئی ایم ایف پروگرام کے تحت کرنسی کو مارکیٹ فورسز پر چھوڑ دیا گیا ہے اور اسٹیٹ بینک یا حکومت اس میں مداخلت نہیں کر سکتی جب کہ سیلاب کی وجہ سے ہارڈ انفرا اسٹرکچر پر کام نہیں ہو سکتا۔ ان مشکلات کے سبب اور آئی ایم ایف پروگرام کی موجودگی میں پورا ہونا ایک مشکل مرحلہ ہے۔ مہنگائی میں کمی لانا نئے وزیر خزانہ کی اولین ترجیح ہے ، تاکہ عوام میں ایک اچھا تاثر قائم ہونا شروع ہو فی الوقت عوام تحریک انصاف کے دور کی مہنگائی کو یاد کرتے ہوئے اس دور حکومت کو نسبتاً بہتر قرار دے رہے ہیں حالانکہ دیکھا جائے تو اس دور میں بھی مہنگائی کم نہ تھی مگر حکومت کی تبدیلی اور نئی حکومت آنے کے بعد لوگوں کو جس صورتحال سے دو چار ہونا پڑا اس نے اس مہنگائی کو بھلا دیا۔ ایک خوش آئند خبر یہ ہے کہ ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپیہ مستحکم ہوا ہے ، ساتھ ہی پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں کاروبار کے آغاز پر ہی تیزی کا رجحان دیکھا جارہا ہے۔ سیاسی معاملات کی کروٹ اب مکمل حکومت کے حق میں ہو گئی ہے۔ سیاسی معاملات بھی تحریک انصاف کی اسمبلی میں واپسی کے عندیہ سے اور احتجاج کی کال کو مؤخر کرنے سے بہتری کی طرف گامزن نظر آتا ہے یہ جملہ معاملات بہرحال اسحق ڈار کے لیے معاون ثابت ہوں گے۔

مزید پڑھیں:  چار سنگین تر ہوتے مسائل