سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا سروے کرنے میں تاخیر

خیبر پختونخوا میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی بحالی کیلئے عالمی اداروں نے براہ راست رقم فراہم کرنے کی بجائے صوبائی حکومت سے منصوبے طلب کر لئے ہیں،کیونکہ غیر ملکی امدادی ادارے خود ترقیاتی منصوبوں پر رقم خرچ کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں،اس ضمن میں صوبائی حکومت نے انتظامی محکموں کو سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں انفراسٹرکچر اور نقصان کی تباہی کا تخمینہ لگانے کا ہدف دیا تھا مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تاحال نقصانات کا سروے مکمل نہیں ہو پایا ہے۔
عامی امدادی اداروں کی فنڈنگ سروے کی بنیاد پر ہوتی ہے،جب انہیں تسلی ہو جاتی ہے کہ فنڈز شفافیت کے ساتھ حق داروں تک پہنچیں گے اور جو اعداد و شمار پیش کئے جا رہے ہیں حقیقت میں نقصان بھی اسی قدر ہوا ہے تو وہ فنڈز کے اجرا میں تاخیر نہیں کرتے،جبکہ ہمارے ہاں نقصانات کا تخمینہ لگانے کیلئے سروے کرانے کا رجحان نہیں ہے، حکام کی خواہش ہے کہ دنیا میڈیا میں سیلاب کی تباہ کاری دیکھ کر ہماری مدد کیلئے آگے بڑھ کر فنڈز جاری کرے۔
نقصانات کا تخمینہ اور سروے کرانے کیلئے ہمارے پاس کافی وقت تھا مگر بوجوہ اس طرف توجہ نہیں دی گئی،یہ کام وفاقی سطح پر ہونا چاہئے تھا، اب وزیر اعظم شہباز شریف نے ہدایت جاری کی ہے کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں نقصان کا سروے کا عمل جلد مکمل کیا جائے ،ہماری دانست کے مطابق حکومت روایتی انداز میں نقصانات کا سروے کرانے کی کوشش کر رہی ہے جو خاصا مشقت طلب کام ہے،اس کے برعکس اگر ڈیجیٹل انداز میں سروے کرایا جاتا اور نادرا کو ذمہ داری سونپی جاتی تو شفافیت کے ساتھ ساتھ چند دنوں میں سروے مکمل ہو جاتا،کیونکہ نادرا کے پاس سارا ریکارڈ پہلے سے موجود ہے اور خاندان کے ایک فرد یا سربراہ کا اندراج ہونے کے بعد دوبارہ اندراج کا آپشن بھی ختم ہو جاتا، متاثرین اپنی ضرورت سمجھتے ہوئے سروے میں ازخود حصہ لیتے، متاثرہ علاقوں میں نادرا کی گاڑی بھیج کر یا آن لائن اندراج کی سہولت فراہم کر کے ابتدائی سروے مکمل کیا جا سکتا ہے، دوسرے مرحلے میں مقامی سطح پر متاثرہ افراد کا ڈیٹا پیش کر کے تصدیق کی جا سکتی ہے مگر افسوس کی بات ہے کہ نقصانات کا تخمینہ لگانے کیلئے سروے مکمل نہیں ہو پایا ہے،ایسی صورتحال میں کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ عالمی امداد کے ادارے ہمارے ساتھ تعاون کریں گے؟ سروے جلد مکمل نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ فنڈز کی تقسیم میں غیر شفافیت ہے جو متعلقہ ادارے کرنا چاہتے ہیں تاکہ نہ سروے ہو گا اور نہ وہ آڈٹ میں آ سکیں گے، بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں فنڈز پہلے منگوا لئے جاتے ہیں اور تقسیم بھی کر دیئے جاتے ہیں، جس کا اندراج سادہ طریقے سے رجسٹر میں کر لیا جاتا ہے،بعد ازاں اپنی مرضی کے اعداد و شمار پیش کر کے معاملہ نمٹا دیا جاتا ہے، اس پریکٹس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ بہت سے متاثرین امداد سے محروم رہ جاتے ہیں،سو ضروری ہے کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں نقصانات کا تخمینہ لگانے کیلئے سروے جلد مکمل کیا جائے تاکہ کوئی بھی خاندان امداد سے محروم نہ رہے اور سردی آنے سے پہلے بحالی کا عمل شروع ہو جائے۔
نیپرا کا بجلی صارفین سے اضافی ٹیکس وصولی کا اعتراف
پاکستان کے عوام خطے میں مہنگی ترین بجلی استعمال کرنے والے صارفین ہیں، کسی بھی مد کا خسارا عوام پر بجلی کے اضافی بل بھیج کر پورا کرنے رجحان پایا جاتا ہے، گزشتہ تین ماہ بجلی کے بلوں نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے، المیہ تو یہ ہے کہ حکومت سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی بجلی بلوں میں اضافہ کرتی رہی، یعنی اداروں کی نااہلی کا بوجھ عوام پر ڈال دیا گیا، جو پاور پلانٹ بند پڑے ہیں انہیں ٹھیک کرنے کی بجائے اس کا خسارا بھی عوام پر ڈال دیا گیا،اس ستم ظریفی کا پردہ چاک نیپرا کی رپورٹ کر رہی ہے۔ نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے اسٹیٹ آف دی انڈسٹری رپورٹ میں کہا ہے کہ بجلی بلوں میں ایسے سرچارج بھی ہیں جن کا صارف کی بجلی کھپت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پاور سیکٹر سے متعلق نیپرا کی اسٹیٹ آف انڈسٹری رپورٹ 2022ء میں بتایا گیا ہے کہ ایک سال میں کیپیسٹی پیمنٹس میں 107 ارب روپے اضافہ ہوا اور 2021ـ22 میں 721 ارب روپے کی کیپیسٹی پیمنٹس کی گئیں جو 21 میں 614 ارب روپے تھیں۔ نیپرا رپورٹ کے مطابق 2021ـ22میں ایل این جی کی قلت کے باعث مہنگے پاور پلانٹس چلائے گئے، ایل این جی کی قلت سے صارفین پر 19 ارب 33کروڑ روپے کا اضافی بوجھ پڑا، ملک میں بجلی کی طلب کے باوجود بہترین صلاحیت والے پلانٹس نہیں چلائے گئے۔ گڈو پاور پلانٹ کے ایک یونٹ سے بجلی پیدا نہ کرنے سے 55 ارب روپے کا نقصان ہوا، چھ شوگر ملیں 2 سال سے بجلی کمپنیوں سے بجلی خریدنے کا کہہ رہی ہیں، بجلی کمپنیاں اپنے علاقوں میں پلانٹس سے سستی بجلی نہیں خرید رہیں۔ بجلی بلوں سے غیر متعلقہ ٹیکس، سرچارج ختم کرنے اور بلنگ سسٹم کو ری اسٹرکچر کرنے کی ضرورت ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بجلی بلوں کے ذریعے بھاری ٹیکس لیے جاتے ہیں، وفاقی حکومت نے بجلی بلوں کے ذریعے ٹیکس اور سرچارج عائد کر رکھے ہیں، بجلی بلوں پر ایسے سرچارج بھی ہیں جن کا صارف کی بجلی کھپت سے تعلق نہیں، سسٹم کی ناقص کارکردگی کا بوجھ بھی سرچارجز کے ذریعے عوام بھگت رہے ہیں۔ نیپرا کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بجلی بلوں کے ذریعے ٹیکسز ڈیوٹیز اور سرچارجز سمیت ٹی وی فیس وصولی سے متعلقہ اداروں کی کارکردگی پر سوالات اٹھ رہے ہیں، یہ ادارے خود براہ راست عوام سے ٹیکس وصول کرنے کے قابل نہیں۔ آئین پاکستان میں بجلی ہر شہری کا بنیادی حق ہے لیکن ہر شہری کو بجلی میسر نہیں ہے۔ نیپرا کی ہوشربا رپورٹ کے بعد حکومت کو اس کا نوٹس لینا چاہئے اور جہاں تک ممکن ہو سکے عوام کو بجلی کی مد میں ریلیف فراہم کیا جانا چاہئے۔

مزید پڑھیں:  عسکریت پسندوں سے مذاکرات؟