آڈیو لیکس اور سائفر کی اعلیٰ سطحی تحقیقات

تحریک انصاف کے مرکزی قائدین کے اہم مشاورتی اجلاس میں عمران خان نے کہا کہ جلد تاریخی لانگ مارچ کی باضابطہ تاریخ کا اعلان کیا جائے گا، تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے کہا کہ ہم7دنوں کے اندر لانگ مارچ کی حتمی کال دیں گے، اور یہ کہ اب فیصلہ سڑکوں پر ہو گا، تحریک انصاف کے مشاورتی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ اب اسمبلیوں میں واپس جانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے لہٰذا یہ تجویز مسترد کر دی گئی ہے، دوسری طرف مسلم لیگ ن کے رہنمائوں نے ایوان وزیر اعظم کی آڈیو لیکس کو اہم سکیورٹی بریچ قرار دیتے ہوئے تحریک انصاف کی سابق حکومت کو ذمہ دار قرار دیا ہے، لیگی رہنمائوں نے الزام عائد کیا ہے کہ عمران خان وزیر اعظم ہائوس سے جاتے ہوئے ریکارڈ سے سائفر لے گئے تھے، سائفر کے حوالے سے سابق پرنسپل سیکرٹری سے استفسار کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ سائفر کی کاپی موجود نہیں ہے جو منٹس بنائے گئے تھے وہ موجود ہیں، سائفر کی کاپی موجود ہونا اس لئے بھی ضروری ہے کہ جب منٹس اور کاپی میںموازنہ کیا جائے گا تو حقیقت تک پہنچنا آسان ہوگا۔
امر واقعہ یہ ہے کہ وزیر اعظم ہائوس کی آڈیو لیکس، اس کے بعد عمران خان کی آڈیو لیکس اور سائفر کی اعلیٰ سطحی تحقیقات بہت ضروری ہیں، تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ کر رہے ہیں،اس حوالے سے تحریک انصاف نے سپریم کورٹ سے رجوع بھی کیا ہے،حکومت کو غیر جانبدار تحقیقات کی راہ میں رکاوٹ نہیں ڈالنی چاہئے، حکومت نے اگرچہ قومی سلامتی کونسل کے اجلاس میں اعلیٰ سطحی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی ہے مگر تحریک انصاف اس پر تحفظات کا اظہار کر رہی ہے، تحریک انصاف کے تحفظات کو دور کیا جانا چاہئے تاکہ جب معاملے کی تحقیقات مکمل ہوں تو پھر اس پر کسی فریق کو اعتراض نہ ہو، وزیر اعظم ہائوس کی آڈیو لیکس کا معاملہ انتہائی حساس ہے، تاہم تحقیقات سے قبل آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت تحریک انصاف کے خلاف کارروائی عمل میں لانے کا عندیہ دینے سے یہ تاثر ابھرے گا کہ حکومت اپنی مرضی سے کارروائی کر رہی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے مارچ2022ء میں اس وقت سائفر کی کہانی عوام کے سامنے رکھی جب ان کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد آ چکی تھی،اس دوران عمران خان نے مؤقف اختیار کیا کہ بیرونی مداخلت کی بناء پر تحریک انصاف کی حکومت کو ختم کیا جا رہا ہے، اپنے مؤقف کے حق میں انہوں نے ایک خط لہرایا کہ یہ ہے وہ خط جس میں ساری سازش کو بیان کیا گیا ہے، عمران خان کی حکومت اپریل میں ختم ہو گئی مگر غیر ملکی مداخلت والا ان کا بیانیہ مقبول ہو گیا، یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ حکومت میں ہونے کے باوجود تحریک انصاف کی مقبولیت کا گراف نیچے آ رہا تھا کیونکہ مہنگائی کی وجہ سے عوام تحریک انصاف کی حکومت سے نالاں تھے تاہم جونہی بیرونی مداخلت والا بیانیہ سامنے آیا تو بہت سے لوگوں نے اس پر یقین کر لیا۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کو مقبولیت کی بناء پر پنجاب کے ضمنی الیکشن میں اہم کامیابی حاصل ہوئی۔ عجب ہے کہ سپریم کورٹ نے سائفر کی ابتدائی سطح پر تحقیقات کیں اور فیصلہ دیا کہ بیرونی سازش کے شواہد نہیں ملے ہیں، اس کے باوجود لوگ عمران خان کے مؤقف کی حمایت کرتے رہے مگر اب آڈیو لیکس کے بعد عقدہ کھل رہا ہے کہ تحریک انصاف نے سائفر کی کہانی خود گھڑی اور اسے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنا چاہا،ان حقائق کے بعد بھی عمران خان اپنے مؤقف پر قائم ہیں اور سپریم کورٹ سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ سائفر اور آڈیو لیکس کی جوڈیشل تحقیقات کرائی جائیں،تاہم دوسری طرف وہ لانگ مارچ اور فیصلہ سڑکوں پر کرنے کی دھمکی بھی دے رہے ہیں، اس سے تاثر قائم ہوتا ہے کہ عمران خان کو اداروں پر یقین نہیں ہے، اس تناظر میں دیکھا جائے تو سیاسی تصادم کے امکانات بڑھ رہے ہیں،ایسے حالات میں جب ملکی حالات ناگفتہ بہ ہیں،عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں،روپے کے مقابلے میں ڈالر بے قابو ہے،عوام پرامن امید تھے کہ اب انہیں ریلیف ملے گا مگر اہل سیاست ذاتی مفاد سے بالا ہو کر سوچنے کے لئے تیار نہیں ہیں،حکومت اور اپوزیشن ہر دو جانب سے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے،ایسے حالات کا تقاضا ہے کہ سپریم کورٹ کی نگرانی میں اعلیٰ سطحی جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے جو معاملات کا غیر جانبدارانہ جائزہ لینے کے بعد حقائق قوم کے سامنے رکھے، یہی ایک صورت ہے جسے قبول کرکے آگے بڑھا جا سکتا ہے، بصورت دیگر تصادم کو روکنا آسان نہ ہوگا۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سائفر کی جوڈیشل تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ سائفر کی کاپی وزیر اعظم ہائوس کے ریکارڈ سے غائب ہے، وزیر اعظم ہائوس کے ریکارڈ سے سائفر کا غائب ہونا غیر معمولی واقعہ ہے، انتہائی حساس نوعیت کا سائفر غائب ہو جاتا ہے مگر اس کا سراغ نہیں ملتا، دوسری اہم بات یہ ہے کہ جب سائفر کو تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے پیش ہی نہیں کیا جا سکے گا تو تحقیقات کس کی ہوں گی؟ تحریک انصاف اگر سمجھتی ہے کہ میٹنگ کے منٹس کو سائفر بنا کر پیش کر دیا جائے گا تو یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ مفروضوں پر فیصلے نہیں ہوتے،آگے بڑھنے کیلئے ضروری ہے کہ آڈیو لیکس کو قومی مسئلہ سمجھا جائے،اگر اس اہم معاملے پر سیاست جاری رہی تو کل ایسی ہی صورتحال سے دوسری سیاسی جماعتوں کو بھی دو چار ہونا پڑ سکتا ہے، مسئلے کا مستقل حل ضروری ہے جس کیلئے جوڈیشل تحقیقات کرائی جانی چاہئے۔

مزید پڑھیں:  سانحہ قصہ خوانی اور ا نگریزوں کا کردار