سرکاری تعلیمی اداروں کا المیہ

میٹرک اور انٹر کے امتحانات میں سرکاری کالجز اور سکولوں کے مایوس کن نتائج سامنے آئے ہیں، بعض اداروں کے نتائج پچاس فیصد سے بھی کم آئے ہیں۔یاد رہے کہ ہائیر سیکنڈری سکولوں میں سبجیکٹ سپیشلسٹ بھرتی کئے گئے ہیں جو صرف انٹر کلاسز کو پڑھاتے ہیں لیکن اس
کے باوجود ان تعلیمی اداروں کے خراب نتائج ان کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔سرکاری سکولوں اور کالجوں کے طالب علموں کا فیل ہونے کی شرح میں اضافہ اور نتیجہ خراب آنے کی وجوہات کی تحقیقات کے بعد ان کو دور کرنے پر توجہ دینے میں اب تاخیر کی گنجائش نہیں امر واقع یہ ہے کہ سرکاری تعلیمی اداروں میں اپنے بچوں کے داخلے پرپہلے بھی کم ہی لوگ تیار ہوتے تھے حالیہ نتائج کے بعد رہی سہی کسر بھی پوری ہو گئی ہے صرف متوسط طبقہ ہی نہیں عام افراد بھی اپنا پیٹ کاٹ کر نجی تعلیمی اداروں میں بچوں کوتعلیم دلانے کوترجیح دیتے آئے ہیں لیکن غربت و بے روزگاری اور مہنگائی کے اس عالم میں اب ان کے پاس پیٹ پوجا اور بچوں کو پڑھانے میں سے ایک کا موقع رہ گیا ہے ظاہر ہے جسم وجاں کا رشتہ ہی برقرار رکھنا مجبوری ہے ایسے میں سرکاری تعلیمی اداروں میں داخلوں کا انحصار بڑھ جائے گا لیکن سرکاری تعلیمی اداروں کی جو صورتحال ہے اس سے تو بہتر یہی لگتا ہے کہ بچوں کو کوئی ہنر سکھا دیا جائے جس طرح کے نتائج سامنے آئے ہیں اس کی روشنی میں تو ان سرکاری تعلیمی اداروں کو ہنرسکھانے کے مراکز میں تبدیل کیا جائے تو موزوں ہوگا جو نادار طالب علم بہت ذہین اور قابل ہوں حکومت ان کو شفاف مقابلے کے امتحان کے ذریعے سکالر شپ دے کر معیاری تعلیمی اداروں میں پڑھانے کا اہتمام کرے جکہ نجی تعلیمی اداروں کے نظام میں بھی اصلاحات کی ضرورت ہے گلی محلے کے نجی سکولوں اور سرکاری تعلیمی اداروں میں زیادہ فرق نہیں جبکہ معروف تعلیمی اداروں میں طلبہ کے زیادہ نمبر لانے کے لئے جو حربے استعمال کئے جاتے ہیں وہ بھی کوئی پوشیدہ امر نہیں ایسے میں پورا نظام تعلیم ہی اصلاحات اور تبدیلی کا متقاضی ہے اور اس صورتحال کا ماہرین سے جائزہ کے بعد رپورٹ مرتب کروا کر اس پرپوری طرح عمل پیرا ہوا جائے تعلیم عام کرنے کی اہمیت سے انکار نہیں معیاری تعلیم زیادہ ضروری ہے جس کاتقاضا ہے کہ نظام امتحانات اور طریقہ امتحانات میں بھی تبدیلی لائی جائے اور اس عمل کی بھی اصلاح ہونی چاہئے جن جن سرکاری سکولوں اور کالجوں کے نتائج بہتر نہیں آئے اس کے اساتذہ کے حوالے سے معلومات اکٹھی کرکے ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے سکولوں اور کالجوں میں ڈیٹنشن امتحانات شروع کرکے پاس نہ ہونے والے طالب علموں کو بورڈ کا امتحان دینے سے روکنے کا سلسلہ شروع ہونا چاہئے تاکہ طلبہ اور اساتذہ دونوں کا بروقت احتساب ہو سکے ۔
پولیس کا احتساب پولیس کے ہاتھوں؟
پشاور کے مختلف تھانوں میں مبینہ خودکشیوں کے واقعات کی انکوائریز کا بے نتیجہ نکلنا بلاوجہ نہیں بلکہ پیٹی بندوں کو بچانے کی سوچی سمجھی سعی اس کی بڑی وجہ ہو سکتی ہے ۔ ہمارے کرائمر رپورٹر کے مطابق اس طرح کے واقعات محض فائلوں میں دب ہوکررہ جاتے ہیں اور ان واقعات کے حوالے سے حقائق تاحال عوام کے سامنے نہیں لائے گئے،جس کے چند ایک مثالیں یہ ہیں کہ مارچ 2021ء میں تھانہ غربی کے حوالات میں ایک نوجوان کی حوالات میں مبینہ طور پر گلے میں پھندا ڈال کر خودکشی کرلی تھی جس کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، متوفی ساتویں جماعت کا طالبعلم تھا، واقعہ کے بعد ایس ایچ اوتھانہ غربی سمیت عملے کو معطل کردیا گیا تھا اور جوڈیشل انکوائری کرائی گئی جبکہ اس حوالے سے رپورٹ بھی جمع کرائی گئی، ذرائع کے مطابق رپورٹ میں اسے خودکشی قرار دیا گیا تھا لیکن اس کے بعد کوئی کارروائی نہیں ہوئی اسی طرح ماہ اگست 2022ء میں مچنی گیٹ تھانہ میں بیوی کے مبینہ قتل میں ملوث ملزم نے حوالات میں گلے میں پھندا ڈال کر مبینہ طور پر خودکشی کی جس کے بعد لواحقین نے ورسک روڈ پر نعش رکھ کر احتجاج کیا، نعش کا پوسٹمارٹم بھی کرایا گیا جبکہ غفلت برتنے پر ایس ایچ او مچنی گیٹ سمیت دیگر عملے کو معطل کرکے انکوائری بٹھائی گئی لیکن ڈیڑھ ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی انکوائری مکمل نہ ہو سکی نہ حقائق عوام کے سامنے لائے جا سکے اس حوالے سے ایس ایس پی آپریشنز پشاور کا موقف جاننے کی متعدد بار کوشش کی گئی تاہم ان سے رابطہ نہ ہوسکا۔محولہ دو واقعات نہیں بلکہ اس طرح کے درجنوں واقعات ہوں گے نیز جہاں بھی پولیس زیادتی اور تشدد و رشوت ستانی کے معاملات کی تحقیقات شرع کی گئیں شاید ہی کوئی نتیجہ سامنے آیا ہو اس طرح کے معاملات پرپولیس کے اعلیٰ افسران سبھی بات کرنے سے احتراز کرتے ہیں شاید اس اس کی وجہ یہ ہو کہ ان کے پاس اس کی کوئی توجیہ ہی نہ ہو ان معاملات کا حکومت اور عدلیہ کو سختی سے نوٹس لینا چاہئے تاکہ کسی کا خون رائیگاں نہ جائے کسی پر تشدد کے بعد ان کو انصاف نہ ملے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پویس کا قبلہ درست ہو اور آئندہ کے لئے سزا کا خوف ہو تا کہ دوسرے عبرت حاصل کریں۔

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا