کشیدگی سے اجتناب کی ضرورت

سابق وزیراعظم عمران خان اوران کے قریبی ساتھیوں کے خلاف سفارتی سائفراور آڈیولیکس کے معاملے پرقانونی کارروائی کی وفاقی کابینہ نے بھی باضابطہ منظوری دیدی ہے ۔وفاقی کابینہ نے سائفر کی آڈیو لیکس کے معاملے پر سابق وزیراعظم عمران خان’ اسد عمر’ شاہ محمودقریشی اور سابق سیکرٹری ٹو پرائم منسٹر اعظم خان کے خلاف قانونی کارروائی کی باضابطہ منظوری سرکولیشن سمری کے ذریعے دی۔ کابینہ کمیٹی نے یکم اکتوبر کو منعقدہ اجلاس میں قانونی کارروائی کی سفارش کی تھی۔کابینہ کمیٹی کی سفارشات میں کہا گیا ہے کہ یہ قومی سلامتی کا معاملہ ہے جس کے قومی مفادات پر سنگین مضر اثرات ہیں، قانونی کارروائی لازم ہے’ ایف آئی اے سینئر حکام پر مشتمل کمیٹی تشکیل دے۔سفارشات میں کہا گیا ہے کہ ایف آئی اے انٹیلی جنس اداروں سے بھی افسران اور اہلکاروں کو ٹیم میں شامل کر سکتی ہے’ ایف آئی اے کی ٹیم جرم کرنے والوں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرے۔یاد رہے کہ ڈپلومیٹک سائفر سے متعلق عمران خان کی پہلی آڈیو28ستمبر اور دوسری آڈیو30ستمبر کو منظر عام پر آئی۔ آڈیو لیکس میں عمران خان’ اعظم خان’ شاہ محمود قریشی اور اسد عمر سائفر تبدیل کرنے کے بارے میں مشورہ کر رہے ہیں ۔دریں اثنائچیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے بھی مبینہ دھمکیوں والا امریکی سائفر غائب ہونے کی تصدیق کر دی ہے ان کے اعترافی بیان کی ویڈیوسوشل میڈیا پرخوب وائرل ہورہی ہے۔گزشتہ روز نجی ٹی وی کو دئیے گئے انٹرویو میں عمران خان کا کہنا تھا ایک سائفر میرے پاس تھا’وہ غائب ہو گیا’ کہاں گیا مجھے نہیں پتا۔ان کا یہ بیان ایک نیا باب کھولنے کے لئے کافی ہے۔ بہرحال امریکی سائفر کے معاملے کو پہلے سابق وزیر اعظم نے سیاسی طور پراستعمال کیا اس کی کسی حد تک ان کی آڈیو لیکس سے بھی تصدیق ہوتی ہے بعد ازاں بھرے جلسہ عام میں انہوں نے امریکی خط لہرایااوراب تک وہ اس سائفر کوسیاسی جلسوں میں موضوع بحث کے طورپرجاری رکھے ہوئے ہیں اور پی ٹی آئی کی سیاست اور حکومت کا خاتمہ مبینہ امریکی سازش کے گردگھوم رہی ہے دوسری طرف دیکھا جائے تو حکومت بھی اس معاملے کو سیاسی طور پراستعمال کرنے اور عمران خان اوراس کے ساتھیوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لئے استعمال کررہی ہے وگر نہ اگر یہ سیاسی کے علاوہ کوئی اور معاملہ ہوتا تو اب تک ان کے خلاف کارروائی ہوجانی چاہئے تھی سائفر کے نقل کی گمشدگی البتہ لاپرواہی اور قومی راز کی حفاظت میں ناکامی کا مظہر ہے جس کی تحقیقات کا فیصلہ اور کے نتائج کے بھی سیاست ہی پر اثرات مرتب ہوں گے وگر نہ حمود الرحمان کمیشن رپورٹ سے لے کر اسامہ بن لادن کے واقعے کی رپورٹ کے ساتھ ساتھ دیگر اہم معاملات کی تحقیقات کی رپورٹ غرض کسی بھی اہم معاملے پرمرتب رپورٹ نہ کبھی سامنے لائی گئی اور نہ ہی اس کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا کوئی اچھا ریکارڈ ہے اس معاملے کو جس طرح طرفین استعمال کر رہے ہیں اس حوالے سے بھی کسی نتیجہ خیز پہلو کا امکان کم ہی دکھائی دیتا ہے بہرحال یہ حکومت کی سنجیدگی پرمنحصر ہے البتہ اس کا نوٹس اعلیٰ سطح پر لیاگیا ہے اور بظاہر اس حوالے سے حکومت سنجیدہ بھی نظرآتی ہے اور اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے موڈ میں نظر بھی آتی ہے چھ مہینے سے جاری یہ کشمکش اب ایک اور صورت اختیار کرنے جارہی ہے دلچسپ امر یہ ہے کہ امریکی سائفر کی تحقیقات اور اس سازش کے حوالے سے تحقیقات کی شرط پر تحریک ا نصاف پارلیمان میں واپسی کا عندیہ بھی دے چکی ہے اس ضمن میں سابق وزیر اعظم کی اپنے سیکرٹری سے مبینہ گفتگو اور اس کے مندرجات ایک علیحدہ موضوع ہے ہمارے تئیں اگر اس کی تحقیقات کے نتیجہ خیزہونے کا امکان ہے تو اس کی تحقیقات ضرور ہونی چاہئے مگر اندیشہ یہ ہے کہ اس معاملہ کے نتیجہ خیز کم اور سیاسی تنازعہ بڑھ جانے کا باعث ہونے کا خدشہ زیادہ ہے ایک ایسے وقت میں جب پہلے ہی سیاسی نزاع کی کیفیت آخری حدوں کو چھو رہی ہے اس کے بڑھاوا کا باعث بننے والے کسی معاملے میں پڑنا مصلحت کے خلاف ہوگا بہتر ہو گا کہ فریقین اسے مزید کریدنے اور خواہ مخواہ موضوع بحث بنائے رکھنے کی بجائے یہ باب اب بند کر دیا جائے اس ضمن میں تحقیقات اور کارروائی سے یہ بات تازہ اور سیاسی باب کے طور پر مزید اجاگر ہوگا اور اس کا نتیجہ کم ہی نکلنے کا امکان ہے بنابریں مصلحت اسی میں ہے کہ جس سطح پر قومی معاملات جا چکے ہیں انہیں مزید بگاڑ کی طرف جانے سے روکا جائے اس وقت ہمارے ملک اور سماج کو جس قدرہم آہنگی کی ضرورت ہے اتنی پہلے کبھی نہ تھی دانشمندی کاتقاضا ہے کہ اسے مزید پھیلنے اور وسعت اختیار کرنے سے روکا جائے سیاسی چپقلش کے اثرات سے معاشرے میں نفرت اور انتشارکی کیفیت میں اضافہ ہو رہا ہے اور حالات کے خطرناک رخ اختیار کئے جانے کا خدشہ بڑھ رہا ہے ملک کو درپیش معاشی مسئلہ سنگین اور من ا لحیث المجموع یہ سب کا اور ملک کامسئلہ ہے ان حالات میں سیاسی عدم استحکام کے معیشت اور سرمایہ کاری پر منفی اثرات مرتب ہونا یقینی امر ہے اس طرح کے حالات میں حکومتیں دیر یا معاشی منصوبہ بندی کے قابل نہیں ہوتیں اورنہ ہی غیر ملکی سرمایہ کار اطمینان سے سرمایہ کاری پرآمادہ ہوتے ہیں حالات کا تقاضا ہے کہ کشیدگی اور عدم استحکام سے گریز کا رویہ اختیار کیا جائے خدانخواستہ حالات کسی بھی وجہ سے ناخوشگوار نہ رہیں تو اس کے سب سے منفی ا ثرات معیشت پر پڑیں گے جس کے ہم متحمل نہیں ہوسکتے ۔

مزید پڑھیں:  ملازمین اور پنشنرز کا استحصال ؟