طُرفہ معجون

کہاوت کہہ لیں یا محاورہ کہیںیہ حقیقت ہے کہ آدمی زادہ طرفہ معجعون ہو تا ہے ، یہ بھی درست ہے کہ پاکستان میں تو سیاست طرفہ تما شا ہی نہیں طرفہ معجون بھی قرار پارہی ہے ، نقارہ خانے میں اتنے سیاسی توتے ٹائیں ٹائیں کرتے ہیں کہ توجہ دماغی بوجھ بن جاتی ہے اور حالات ہر لمحے پلٹاکھاجاتے ہیں کہ سمجھ نہیں پڑتی ہو ا کیا ہے یا ہو کیارہا ہے ، موصوف نے ٹیکسلا میںفرمایا کہ اگر کسی کا گھر ڈاکو لو ٹ رہے ہیں تو کیاچوکیدار کہہ سکتا ہے کہ وہ نیوٹرل ہے ، پھر تو مکین چوکیدار کے خلا ف اٹھ کھڑے ہوں ہوگے ، ایسی ہی باتیں اور بھی کیں پوری قوم سمجھتی ہے کہ یہ بھڑکاؤ کیوںکیا جا رہا ہے اور کس کے لیے کیا جا رہا ہے ، مگر مصیبت یہ ہے کہ سما جی ذرائع ابلا غ کے بل بوتے پر ہواکا رخ بدل دیا جاتا ہے ، کہا یہ جا رہاتھا کہ عارف علوی جو پی ڈی ایم کی حکومت آنے کے بعد بھی پوری طر ح صدر مملکت نہیںبن پائے ہیںان کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ وہ مملکت خداداد کے صدرمملکت کم کم لگ رہے ہیں البتہ پی ٹی آئی کے زائد زائد لگتے ہیں ، خبر یہ تھی کہ مو صوف نے ایوان صدر میں سابق وزیر اعظم اور آرمی چیف کی ملا قات کا اہتمام کر ایا ،اہتمام کی غرض وغایت کی تک کیا تھی ، کیا کوئی ملک سے جڑا ہوا دفاعی معاملہ تھا جس پر تبادلہ خیا ل کر انا تھا، اگر ملک کی سالمیت کا کوئی گمبھیر معاملہ تھاتو اس بیٹھک میں ملک کے انتظامی سربراہ کو بھی شامل کر نا بنتا تھا ، ماضی میں اسٹبلشمنت اورسیاست کے حوالے سے جو چہ میگوئیاں کی جا تی تھیں اس کا تقاضا تو یہ تھا کہ جب ایک طرف سے یہ کہہ دیا گیاہے کہ اب وہ غیر جانبدار ہیں (خان صاحب نیو ٹرلز)کا لفظ بہتات سے استعمال کر تے ہیں )تو اس سے زیا دہ قوم کے لیے نیک سعید گھڑی اور کیاہو سکتی تھی جس کا کا م اسی کو ساجھے والی بات ہے ، تاہم ابھی تک موصوف نے یہ نہیں بتایا کہ وہ نیو ٹرل ہونے کے کیوں خلا ف ہیں وہ ان سے کیا چاہتے ہیں ان کا مدعا کیا ہے ایک طرف وہ سوشل میڈیا کے ذریعے عوامی طاقت دکھاتے ہیں دوسری طرف قومی اداروںکو سیاست میں گھیسڑنے کی تحریک چلا تے ہیں کیا ان کو عوام پر بھروسا نہیں ہے ، جس روز اطلا ع آئی کہ ان کے خلا ف وارنٹ جاری ہو ا ہے تو اس رات ان کی گرفتاری کو بزور عوامی طاقت روکنے کے لیے پارٹی کی خاتون کارکنو ںکو طلب کرلیا گیا ، جنہون نے ساری رات جاگ کر بنی گلہ کے محل کا محاصرہ رکھا تاکہ گرفتاری کو نا کام بنا یا جا سکے ، ، لیکن سرکا ری ذرائع کاکہناہے کہ ایسا کوئی معاملہ نہ تھا پولیس کا گشت معمول کا حصہ تھا ، پھر یہ کہ وارنٹ بھی کو ئی غیر معمولی نو عیت کے جرم پر جاری نہیںہوا تھا ،اس وارنٹ پر ڈیو ٹی مجسٹریٹ سے ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کی جا سکتی تھی ، تاہم اتوار کے روز اسلام آباد ہائی کو رٹ کھلوائی گئی جہا ں سے انھوں نے عبوری ضما نت حاصل کی اگر وہ ڈیو ٹی مجسٹریت کی عدالت تشریف لے جا تے تو بھی یہ کا م آسانی سے ہو سکتا تھا ،جیسے گزشتہ دنوں پاکستان میں ڈالر کی اڑان دیکھنے کوملی ، اس اڑان کے خوب خوب چرچے بھی کیے جا تے رہے ، یہ اڑان کیو ں ہوئی اس بارے میں پہلے بھی اشارے مل رہے تھے کہ ملک کو دیوالیہ کی جانب لے جانا مقصود تھا ، چنانچہ حکومت سابقہ حکومت کے آئی ایم ایف کے ساتھ کیے جا نے والے معاہدے کی بناء پر ایک طرف قیمتوں کو بڑھانے پر مجبور تھی تو دوسری طرف اسٹیٹ بینک کو جو خودمختاری کے نام پر آئی ایم ایف کے حوالے کیا تھا اس سے باز پرس کرنے کی استعداد نہیں رکھتی تھی، کیو ں اسٹیٹ بینک کو جو خود مختاری ملی ہے اس کے تحت تما م بینک اب براہ راست اسٹیٹ بینک کے کنٹرول میں ہیں ، اسحاق ڈار جو آئی ایم ایف سے نمٹنے کا گر جا نتے ہیں اور اس میں مہا رت بھی رکھتے ہیں کیو ں سالوں انھوں نے اس ادارے سے معاملا ت کئے ہیں ان کی آمد کا یہ کمال ہو ا کہ انھو ں نے آتے ہی پول کھول دیاکہ ڈالر کے ذریعے آٹھ شیڈول بینکوں نے خوب خو ب کمائی کی ہے، اوپن ما رکیٹ کا مطلب واضح ہے کہ ڈالر کی لین دین اوپن ما رکیٹ سے ہوئی ہے ، اسی کمائی کی غرض سے ڈالر کو عقابی پرواز دی گئی ۔ یہ بینکوںکی کا رستانی تھی کہ ڈالر کو ایک دو سو چالیس سے دوسو پنتالیس پر پہنچایا گیا ، اس کے علاوہ اس کھیل میں افغانی بھی ملو ث ہیں ،جن کے یہا ں ان دنو ں ڈالر کی ریل پیل لگی ہوئی ہے ، چنانچہ عوامی سطح پر افغانستان اور پاکستان کے براہ راست لین دین کی وجہ سے افغانستان نے اپنے ڈالر ایسی حالت میںاسمگل ہونے سے روکنے کی خاطراہم اقدامات کیے ہیں کیوںکہ افغانستان میںڈالر کاتبادلہ ہنوز سستا ہے ، چنانچہ اس امرکا قوی امکا ن ہے کہ ڈالر افغانستان سے پاکستان اسمگل نہ ہوجائیں ، چنانچہ افغان حکومت نے اس سلسلے میںمئوثرا قدامات کیے علا وہ ازیں افغانستان کی تما م بیرونی تجا رت پاکستان سے اور پاکستان کی بینکوںکے ذریعے کی جا تی ہے ، چنانچہ افغان تاجر درآمد ات کے لیے ایل سی پاکستانی بینکوںمیںکھولتے ہیں جس کے لیے ان کو ڈالروںکی ضرورت ہو تی ہے ، بینک اس سے بھی فائدہ اٹھاتے ہیں ،ڈالرکی قلت پیدا کر کے کھلی مارکیٹ میں ڈالرکومہنگاکردیاجا تا ہے ، جب ڈالر اپنی حد سے اونچی اڑان کررہا تھااس وقت دیکھنے میں آیا کہ پاکستان کے دیگر شہروں کی نسبت پشاور میں ڈالر کی پرواز کہیں اونچی تھی ۔ ڈالرکی اونچی نیچی پروازسے مہنگائی پربراہ راست فرق پڑتا ہے اگر روپے میںگراوٹ پید اہوتی رہے تو برآمد میں اضافہ ہو جا تا ہے درآمد گھٹ جا تی ہے لیکن برآمد ات سے ملکی معیشت کو وہ فائدہ روپے میںگراوٹ کی وجہ سے نہیں پہنچاکرتا جو ہونا چاہیے کیونکہ بیرونی تجارت تو سستی ہو جاتی ہے مگر اندورنی تجا رت مہنگی ہوجایا کرتی ہے چنانچہ جو دکھتی رگ اسحاق ڈار نے پکڑی ہے اس سے امید ہے کہ ڈالر جلد ہی ایک سو پچاس تک کی اپنی قدر پر لو ٹ آئے گا ،اگر ایسا ہواتو یقینی طور پر قرضوںکے بوجھ میں بھی کمی آجائے گی ۔ لیکن ان سب حالات کے لیے سیاسی استحکا م ہو نا لازمی ہے جو کچھ عناصر کی جانب سے ہو تا نظر نہیں آرہا ہے ۔ان عنا صر کو ملک کو چلنے دینا چاہیے ۔کوئی کھڑاک نہیںکرناچاہیے جس سے بچنے کا عمدہ ذریعہ ایک ہی ہے وہ آئین اور قانون کی بالا دستی کو تسلیم کرنا ہے ۔

مزید پڑھیں:  بیرونی سرمایہ کاری ۔ مثبت پیشرفت