اہل سیاست کی تعلیمی درسگاہوں میں آمد

تحریک انصاف کے رہنما نے گزشتہ دنوں لاہور اور پشاور میں تعلیمی درسگاہوں کا دورہ کیا جہاں طلبا کے سامنے اپنے مخصوص اور معروف بیانیہ کا خوب جادو جگایا۔ تحریک انصاف کے مخالفین نے حسب معمول اس دورہ کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا اور حمایتی اسے خان صاحب کی فتح قرار دیتے رہے۔ میرے حلقہ احباب میں بھی چند معترض تھے کہ سیاسی رہنماؤں کو یوں تعلیمی اداروں میں نہیں جانا چاہیے۔ مَیں نے اُنہیں بتایا کہ زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے مشاہیر ، اہل دانش اور اپنے اپنے شعبوں کے ماہرین ہمیشہ تعلیمی درسگاہوں میں آتے رہے ہیں اور ان کی آمد جہاں ان درسگاہوں کی ایک اعلیٰ روایت رہی ہے وہاں ان شخصیات نے اپنے خیالات اور تجربات سے طلبا کی ذہن سازی میں فعال کردار ادا کیا ہے۔ مَیں نے اپنے زمانہ طالب علمی میں بے شمار شخصیات کی تقریر سنی اور اپنی درسگاہوں میں کئی معززین سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا ہے ۔ اہل سیاست کے حوالے سے مولانا مودودی ، مولانا احتشام تھانوی ، مولانا مفتی محمود ،عبدالولی خان ،ذوالفقار علی بھٹو ، نوابزادہ نصراللہ خان ، مبشر حسن،جے اے رحیم ، ممتاز دولتانہ، معراج محمد خان اور اجمل خٹک کے نام یاد ہیں جنہیں درسگاہوں میں سنا ۔ اسی طرح پنجاب یونیورسٹی اور انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور میں چند اہل فکر اساتذہ کرام جمہوری سوچ ،روشن خیالی اور علم کے پھیلاؤ میں بڑے متحرک تھے اور مختلف مشاہیر اوراہل دانش کے ساتھ مکالمہ کا اہتمام کیے رکھتے۔ جامعات کی ان محفلوں میں ہم چند دوست شریک ہوتے اور ان دانشوروں کی فکر انگیز گفتگو سے ہماری ذہنی بیداری فروغ پاتی۔ مُلک بھر میں ہماری جامعات نے قیام ِ پاکستان کے بعد کئی نسلوں کی تخلیقی ،علمی ، ذہنی اور تہذیبی سطح پر خوب معاونت کی ہے جس سے ان کی صلاحتیں اُجاگر ہوئیں۔ اب اگر سیاست کے حوالہ سے بات کی جائے تو پھر یہ سمجھنا ضروری ہے کہ جمہوریت صرف ایک اسلوب ِ زیست ہی نہیں بلکہ برسوں سے جاری ناانصافیوں کے بتدریج خاتمے کی ایک پُر امن صورت ہے۔ ہمارے ملک میں جمہوریت کی ایک صبر آزما تاریخ دیکھنے اور پڑھنے کو ملتی ہے ۔ یہ تاریخ جمہوریت کے نام پر جمہوریت کشی کے ‘کارناموں’ سے مزین ہے ۔ استحصالی عناصر ،مفاد پرستوں اور مافیا نے یہ کارنامے اس لیے سر انجام دئیے کہ وہ غیر جمہوری مگر اصل طاقت کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکیں ۔ یہ گھناونے واقعات اور اس میں ملوث کردار کسی طور پہ بھی قابل ذکر نہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہ لیا جائے کہ سب خاموش رہیں اور کوئی آواز بلند نہ کی جا ئے۔ آج دُنیا میں اگر حق و صداقت کے لیے لڑنے والوں کی کامیابی پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوگا کہ اُنہوں نے نامساعد حالات میں بھی اپنا چراغ جلائے رکھا تھا۔ جمہوریت ہر دور میں مختلف خیالات و نظریات کی موجودگی کے شدید احساس کا نام ہے۔اس کی موجودگی محض کسی ایک سیاسی جماعت کے دعو ؤں اور نعروں کی مرہون ِ منت نہیں ہو سکتی۔جمہوریت کسی مقبول اور طاقتور پارٹی سے اختلاف رائے رکھنے پر مُلک یا آئین سے غداری کا نام نہیں ہے بلکہ شخصی تجربہ ہے ۔ ہمارے ہاں بہت سی سیاسی قیادتیں کسی فکر اور نظریہ کی بجائے محض نعروں سے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوششیں کر رہی ہیں تاکہ خطرناک سیاسی مقاصد کا حصول ممکن ہو سکے۔ سیاسی رہنماؤں کا ایک دوسرے کو گالیاں دینا اور اس گالم گلوچ سے دوسرے پہ سبقت لینا محض اقتدار کے لیے ان کے ذہنی دیوالیہ پن کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ باتیں کسی دھرنے اور بازاری دروازہ پر کھڑے ہو کر تو کی جا سکتی ہیں مگر کسی درسگاہ کے اندر ایسا خطاب مادر علمی کے تقدس کو پامال کرنا ہے ۔ ہم نے ان باتوں سے مُلک میں نفرت کی فضا پیدا کر دی ہے اور نئی نسل کو تنگ نظر بنایا جا رہا ہے۔ جب بھٹو صاحب کو پھانسی دی گئی تو مبشر حسن کے ساتھ ایک مکالمہ ہوا ۔اُنہوں نے کہا کہ مُلک کی آبادی کو ایک سرنگ میں دھکیل دیا گیا ہے، آپ طلباخوش قسمت ہیں کہ سرنگ میں جانے سے قبل روشنی دیکھ لی ہے۔ مُلک کی یہ ٹرین دس یابیس سال بعد ضرور باہر نکلے گی مگر مجھے فکر اُن بچوں کی ہے جو اس سُرنگ میں پیدا ہوں گے کیونکہ وہ باہر نکل کر روشنی کی تاب نہیں لا سکیں گے۔ آج یہ نسل جوان ہو کر جو کچھ کر رہی ہے یا جیسے استعمال ہو رہی ہے تومجھے بے ساختہ ڈاکٹر مبشر حسن یاد آجاتے ہیں ۔ خان صاحب کی شخصیت کے کئی وصف ہیں ، وہ اگر کسی درسگاہ میں جا کر کرکٹ کے حوالے سے اپنے تجربات بیان کریں یا اپنی سماجی خدمات کا اظہار کریں تو ہمارے بچے ان کے کارناموں کے توسط سے محنت،لگن اور انسانوں کے لیے زندگی کے مقصدکو سمجھ پائیں گے۔ اگر سیاست کی بات کریں تب بھی اپنی مقبولیت کی بنا پر دوسرے کو گالی کی بجائے اخلاق ، روشن خیالی اورسماج کی انسانی اقدار کے تحفظ کا فریضہ سر انجام دیتے ہوئے وہ خود اپنے سیاسی مخالفین سے ارفع تر دکھائی دیں گے جبکہ نئی نسل جمہوری نظام کی بقا کے لیے فہم و فراست اور رائے عامہ کی امنگوں کا احترام کرنا سیکھ جائیں گے۔

مزید پڑھیں:  ڈیٹا چوری اور نادرا؟