بھارت کا بڑھتا ہوا عالمی کردار اور پاکستان

ماہرین اقتصادیات کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس سال کی پہلی سہ ماہی میں ہندوستان کی جی ڈی پی کی شرح نمو 13.5 فی صد تھی۔ اس شرح سے ہندوستان کے موجودہ مالی سال میں سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی معیشت ہونے کا امکان ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ 2029 ء تک ہندوستان دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بن جائے گا۔ اقتصادی لحاظ سے بھارت 2014 ء کے بعد سے اب تک پانچ درجے ترقی کرچکا ہے، 2014 ء میں بھارت عالمی اقتصادی رینکنگ میں 10ویں نمبر پر تھا جب کہ اب وہ گزشتہ دنوں برطانیہ کو کراس کرکے پانچویں پوزیشن پر پہنچ چکا ہے اور اقتصادی ماہرین کا دعویٰ ہے کہ اگر بھارت نے اپنی موجودہ شرح ترقی اسی رفتار سے جاری رکھی تو وہ 2027 ء میں جرمنی اور 2029 ء میں جاپان کو پیچھے چھوڑ دے گا جسے کسی بھی معیار کے لحاظ سے ایک قابل ذکر کامیابی قرار دیا جا رہا ہے۔ اگر بھارت کی اس تیز رفتار اور ناقابل یقین اقتصادی شرح نمو کو ان اطلاعات کے تناظر میں دیکھا جائے کہ بھارت کو رواں سال کے دوران بین الاقوامی سطح پر متعدد بڑے فورموں کے اجلاسوں کی سربراہی ملنے والی ہے جس سے اگر ایک طرف بین الاقوامی سطح پر اس کے قدکاٹھ میں اضافے کا امکان ہے تو دوسری جانب اس صورتحال کو بھارت کے علاقائی تھانیدار بننے کی خواہش کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان سمیت بھارت کے کسی بھی پڑوسی ملک کے لیے نیک شگون قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔ واضح رہے کہ بھارت کو رواں سال دسمبر میں جی 20 کی سربراہی ملنے والی ہے جب کہ اس کا سربراہ اجلاس بھی اگلے سال نئی دہلی میں ہوگا۔ ایک اور قابل توجہ امر انڈیا کو رواں سال دسمبر میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی صدارت کاملنا ہے۔ اسی طرح انڈیا کے G-7 میں شامل ہونے کی بات بھی کی جا رہی ہے اور اگر ایسا ہوا تو اسے بھی بھارت کی ایک بڑی سیاسی واقتصادی کامیابی سے تعبیر کیا جائے گا۔
اس بات میں کوئی دو آراء نہیں ہیں کہ ایس سی او انڈیا کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اگلے سال جب انڈیا کو اس کی صدارت مل جائے گی تو اس نسبت سے اس کا سربراہ اجلاس بھی انڈیا ہی میں منعقد ہوگا اس طرح بھارت دنیا کی سب سے بڑی علاقائی تنظیم کا سربراہ بن جائے گا جو چین بھارت مخاصمت کو مدنظر رکھتے ہوئے معمولی بات نہیں ہے۔ مبصرین اس کے تانے بانے حال ہی میں بھارت کی جانب سے چین کے ساتھ لداخ میں سرحدی تنازع حل کرنے کے تناظر میں بھی دیکھ رہے ہیں کیونکہ اس دیرینہ تنازعے کی موجودگی میں بھارت کا ایس سی او کانفرنس کی صدارت کا حصول کھٹائی میں پڑ سکتا تھا بھارت اس پیش رفت کے ذریعے جہاں چین کو رام کرنے میں کامیاب ہوا ہے وہاں وہ اس پیش رفت کے ذریعے ایس سی او کے دوسرے بڑے پارٹنر روس کا اعتماد حاصل کرنے میں بھی کامیاب رہا ہے۔ انڈیا کی صدارت کے بارے میں چینی صدر شی جن پنگ نے کہا ہے کہ وہ ایس سی او کی صدارت کے لیے انڈیا کی حمایت کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ شی جن پنگ نے اپنی تقریر میں عالمی طاقتوں پر زور دیا ہے کہ انہیں بین الاقوامی نظام کے مطابق ترقی کو فروغ دینے کے لیے منطقی سمت میں مل کر کام کرنا چاہیے۔ ان کے علاوہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے بھی انڈیا کو ایس سی او کی صدارت ملنے پر مبارکباد دی ہے۔
اکثر ماہرین کا خیال ہے کہ دنیا میں سفارت کاری کی سطح پر انڈیا کا قد کئی دیگر ممالک کی نسبت تیزی سے بڑھتا نظر آ رہا ہے۔ ایس سی او کے علاوہ انڈیا کو رواں سال دنیا کے 20 طاقتور ممالک کے جی 20گروپ کی صدارت کا عہدہ ملنے کو بھی سفارت کاری کے میدان میں ایک اہم پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ انڈیا یکم دسمبر 2022 ء کو دنیا کی 20 بڑی معیشتوں کے اس گروپ کی سربراہی کرے گا جو آئندہ سال 30 نومبر تک اس کے پاس رہے گی۔ واضح رہے کہ بطور صدر بھارت دنیا کے جس ملک کو چاہے اس اہم فورم کے سربراہ اجلاس میں مدعو کرسکتا ہے شاید یہ اسی اختیار کا کمال ہے کہ انڈیا کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ انڈیا جی 20 کے اجلاس میں بنگلا دیش، مصر، ماریشس، نیدرلینڈ، نائجیریا، عمان، سنگاپور، اسپین اور متحدہ عرب امارات کو مہمان ممالک کے طور پر مدعو کرے گا۔ اگر دنیا کے نقشے پر ان ممالک کی جغرافیائی موجودگی کو دیکھا جائے تو انڈیا نے یہ فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کیا ہے کیونکہ پڑوسی ملک بنگلا دیش کے علاوہ اس فہرست میں عرب، یورپ، افریقا اور مشرقی ایشیا کے نمایاں ممالک کی نمائندگی شامل ہے۔ یہاں یہ بتانا بھی خالی از دلچسپی نہیں ہوگا کہ جی 20 ممالک دنیا کی جی ڈی پی کا 80 فی صد ہیں جبکہ یہ ممالک بین الاقوامی تجارت کے 75 فی صد اور آبادی کے 60 فی صد کی نمائندگی کرتے ہیں۔ کئی بین الاقوامی اداروں میں انڈیا کی بالادستی کو اگر ایک جانب ایک بڑی سفارتی فتح کے طور پر دیکھا جا رہا ہے تو دوسری طرف اس کے ذریعے بھارت دنیا میں ایک بڑے کردار کے حصول کا بھی متمنی نظر آتا ہے لہذا پاکستان کو اس ساری صورتحال کا نہ صرف انتہائی باریک بینی سے جائزہ لینا ہوگا بلکہ اس صورتحال میں اپنے کردار کا ازسرنو تعین بھی کرنا ہوگا۔

مزید پڑھیں:  عسکریت پسندوں سے مذاکرات؟