پھر وہی غلطی

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے تصدیق کی ہے کہ طاقتور حلقوں کے ساتھ ان کے مذاکرات جاری ہیں۔ صحافیوں کی جانب سے پوچھا گیا کہ آپ نے ایک انٹرویو میں طاقتور شخصیت کے ساتھ ملاقات کے بارے میں سوال کے جواب میں کہا کہ جھوٹ میں بولتا نہیں اور سچ میں بول نہیں سکتا۔اگر آپ بھی سچ نہیں بولیں گے تو کون بولے گا؟ اس پر عمران خان نے کہا کہ جب ہمارے ان کے ساتھ مذاکرات ہو رہے ہیں اور ان کا ابھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا تو اس حوالے سے کچھ بھی کہنا مناسب نہیں ہے۔عمران خان سے دوبارہ استفسار کیا گیا کہ کیا آپ کے طاقت ور حلقوں کے ساتھ مذاکرات ہو رہے ہیں تو عمران خان نے جواب دیا کہ ہم سیاسی لوگ ہیں اور سیاسی لوگ مذاکرات کے لیے کبھی دروازے بند نہیں کرتے۔ بالکل ہمارے مذاکرات جاری ہیں۔ جب عمران خان سے پوچھا گیا کہ سیاسی لوگ آپس میں مذاکرات کی بجائے طاقت ور حلقوں سے ہی مذاکرات کیوں کرتے ہیں تو عمران خان کا کہنا تھا کہ سیاست دانوں سے مذاکرات کئے جا سکتے ہیں مجرموں سے کوئی مذاکرات نہیں ہو سکتے۔ ایک صحافی نے جب کہا کہ جن کو آپ میر جعفر اور میر صادق کہتے تھے، ان کے ساتھ آپ مذاکرات کر رہے ہیں؟ اس پر عمران خان نے مسکرا کر بات ٹال دی۔دریں اثناء پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنماء شبلی فراز نے کہا ہے کہ بطور سیاسی جماعت اسٹیبلشمنٹ سمیت ہر کسی سے بات ہورہی ہے، انتظار کی گھڑیاں ختم ہوگئیں اب ان کے جانے کا وقت ہے، ملک پر کرپٹ اور اشتہاری لوگ قابض ہیں،ان سے عوام کی جان چھڑانی ہے۔ عمران خان کی سوچ ان تجزیوں سے بہت آگے ہے انہوں نے کہا کہ عمران خان کو ان کے جانے کے وقت کا پتہ ہے۔ قبل ازیں اس طرح کی اطلاعات تھیں کہ ایوان صدر میں یکے بعد دیگرے دو ملاقاتوں میں بیل منڈھے چڑھ نہ سکی اور یہ ملاقات بڑی مشکل سے ہوئی تھی۔ بہرحال اب جبکہ ملاقات کی تصدیق ہو چکی ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس ملاقات کی ضرورت ہی کیاتھی ایک جانب سٹیج پر لعن طعن اوردوسری جانب بند دروازوں کے پیچھے ملاقاتیں وطن عزیز کی سیاست کاالمیہ ہی یہ رہا ہے کہ تمام تراختلافات اور بعدو نفرت کے باوجوداقتدار کے لئے سٹیبلشمنٹ کی حمایت کو ضروری خیال کیا جاتا ہے اور اس کے بعد پوری حکومت اشارہ ابرو کی منتظر گزارنا پڑتی ہے جہاں ذرا تیور بدلے تو سیڑھی کھینچ لی جاتی ہے معلوم نہیں ہمارے سیاستدانوں کو بار بار عطار کے لڑکے سے دوا لینے ہی میں کیوں کامیابی نظر آتی ہے سانڈوں کی لڑائی میں طاقتور حلقوں کو بھی خاصا للکارنے سے ملکی سیاست کے رخ کی تبدیلی کا گمان ہونے لگا تھا جبکہ عوامی سطح پر بھی ہمت مرداں کو مدد خدا کے ساتھ ملا کر دیکھا جانے لگا تھا لیکن اچانک قدموں میں سررکھنے کی روایت کے امکانات و اعترافات کے بعد ایک مرتبہ پھر سیاست کا بادباں دوسروں کے سپرد کرنے کا تاثر ہی نہیں پیدا ہوا بلکہ اس کا اعتراف بھی کیا جارہا ہے جو ایک سیاسی چال بھی ہو سکتی ہے اور زیادہ سے زیادہ دوسری جانب سے تھوڑی سی ڈھیل اور ہتھ ہولا رکھنے کی حد تک ہی رعایت دلوائی جاسکتی ہے اس کا اعتراف جہاں مخالفین کو جتلانے کا ہے وہاں اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں شنید ہے کہ اس ملاقات کی باقاعدہ اجازت لی گئی تھی اور آگاہ کرکے اعتماد میں لیا گیا تھا جس سے کسی غلط فہمی کا امکان نہیں اگرسیاسی طور پر دیکھا جائے تو اس اعتراف سے جس کسی کو پیغام دینا اور تاثر قائم کرنامطلوب تھا اس حکمت عملی سے قطع نظر عوام کی سطح پر اس کا فائدہ مخالفین ہی اٹھائیں گے جو خود بھی اب ان عناصر سے دور نہیں بلکہ وہ بھی قریب ہی آئے ہیں ایسے میں ہر دو سیاسی فریق قربت کی گرمجوشی پرنازاں ہوں اصل کامیابی ان کی نہیں بلکہ رقیب ہی کی ہو گی جو باری باری قریب ودور ہونے اور مرضی چلانے کی عادی ہو گئی ہے ایسے میں اصل کردار پھر بھی انہی عناصر کا ہی رہنا ہے اور سیاستدانوں کے ہاتھ کچھ نہیں آنا ہے تحریک انصاف کے قائد ایک جانب اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیکرشفاکے خواہاں ہیں تودوسری جانب جو سیاسی حقیقتیں ہیں ان کو بلاوجہ مطعون رکھنے کی سعی میں ہیں اس طرح سے قریب و دور کی تگ و دو میں تحریک انصاف کی سیاست اور ان کابیانیہ متاثر تو ہو گا لیکن چونکہ تحریک انصاف میں سیاست میں سب چلتا ہے کے دستور کی آنکھیں بند کرکے پیروی کی جاتی ہے اس لئے اسے مقبولیت کی سند ملنے میں مشکل نہیں ہوگی دیکھا جائے تو بڑی خاموشی کے ساتھ تحریک انصاف مخالف عناصر بھی ایک ایک کرکے مشکلات کی بیڑیاں توڑتے جا رہے ہیں اس کا اختتام نواز شریف کی وطن واپسی پر ہونا ہے جس میں اب زیادہ دیر نہیں لگے گی سیاستدان خواہ اس طرف کے ہوں یا پھر اس طرف کے سیاستدانوں ہی کوایک دوسرے سے بات چیت کرکے اپنے معاملات کوطے کرنے کی روایت ڈالنی چاہئے کھلونے بننے کی عادت ترک نہ کی تو کھلونوں کی طرح ہی سلوک ہوگا اور ملک میں کبھی بھی مقتدر و بالا دست سویلین حکومت کے قیام کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوگا۔اب جبکہ اداروں کی جانب سے غیر جانبداری اختیارکرنے کا عزم صمیم کیا گیا ہے تو بہتر یہی ہو گا کہ سیاسی عناصر بھی ان کے اس کردار کی ادائیگی میں اپنا کردار ادا کریں اور خوامخواہ میں ان کو زبردستی سیاست میں گھسیٹ کر بدنام نہ کیا جائے ۔توقع کی جانی چاہئے کہ سیاستدان ایک جانب اداروں کو سرعام مطعون کرنے اور دوسری جانب درپردہ ان کو مداخلت کی دعوت دینے کے طرز عمل سے اجتناب کریں گے اور ملک میں جمہوری سیاست اور شفاف انتخابات کے لئے عملی طورپر کوشاں ہوںگے جس کی اس وقت سب سے زیادہ ضرورت ہے ۔

مزید پڑھیں:  سرکاری و نجی ہائوسنگ سکیموں کی ناکامی