شرومنتی گردوارہ پر بندھک کمیٹی کا انتباہ

بھارت میں ایک طویل عرصے سے غیر ہندو مذہبی برادریوں کے خلاف جاری انتہا پسند ہندووں کی کاروائیوں سے پیدا شدہ صورتحال پر خود بھارت کے اندر سے بھی آوازیں اٹھ رہی ہیں بی جے پی سرکار کی مجرمانہ خاموشی بارے معروف دانشور وینتک مادھو راو کا کہنا ہے کہ بی جے پی فرقہ وارانہ آگ بھڑکا رہی ہے ہندوستانیوں کو ہندوستانی بن کر سوچنا اور بولنا ہوگا اسی اثنامیں بھارتی سکھوں کی سب سے بڑی مذہبی تنظیم شرومنتی گردوارہ پربندھک کمیٹی(ایس جی پی سی)نے آر ایس ایس اور بی جے پی کو سکھوں کے مذہبی معاملات، ایس جی پی ایس کے تنظیمی امور میں مداخلت اور ہندو اکثریتی علاقوں میں سکھوں سے نامناسب برتائو پر احتجاج کرتے ہوئے کہا ہے کہ بی جے پی اور آر ایس ایس کو یہ پیش نظر رکھنا چاہیے کہ بھارت ایک کثیرالثقافتی و کثیرالمذہبی ملک ہے۔ آر ایس ایس اور بی جے پی کی ہندو توا سیاست اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے ساتھ استحصالی برتائو سے بگاڑ بڑھے گا۔ مسلمانوں اور دلتوں کے بعد سکھوں کی سب سے بڑی مذہبی تنظیم کی جانب سے ہندو توا کی سیاست، نامناسب سلوک، مذہبی امور میں حکومت کی پشت پناہی سے مداخلت پر ردعمل اس امر کا ثبوت ہے کہ بی جے پی کی مرکزی اور علاقائی حکومتوں کی پالیسیوں اور انتہا پسند ہندو تنظیموں کی سرپرستی سے ہر کس و ناکس نالاں ہے۔ سکھ دھرم کی مذہبی تنظیم کا انتباہ بلاوجہ نہیں ہے۔ سکھ مذہب کے پیروکاروں سے ناروا برتاو گزشتہ کئی برسوں سے جاری ہے بی جے پی کی علاقائی حکومتیں مرکزی حکومت کے ایما پر مختلف ریاستوں میں آر ایس ایس اور دوسری انتہا پسند تنظیموں کی سرگرمیوں کی سرپرستی میں مصروف ہیں جس کی وجہ سے مسائل پیدا ہوئے۔ آر ایس ایس اور اس کی حلیف جماعتوں نے سکھ برادری کے اندرونی معاملات میں مداخلت اور سیاسی و مذہبی قوت کو تقسیم کرنے کے لئے اپنا کردار گزشتہ برس کے کسان مورچہ کی کامیابی کے بعد شروع کیا۔ کسان مورچہ کا آغاز بھارتی پنجاب اور ہریانہ کے سکھوں نے شروع کیا تھا بعدازاں اس میں دوسری ریاستوں کے چھوٹے کسان بھی شامل ہوگئے۔ کسان مورچہ کے مطالبات کی شرومنتی گردوارہ پربندھک کمیٹی نے بھی حمایت کی تھی۔ شرومنتی گردوارہ پربندھک کمیٹی ماضی میں بھی بھارتی سرکار پر یہ الزام لگاتی رہی ہے کہ سکھ مذہب کے خلاف آر ایس ایس کی سرگرمیوں کو مودی حکومت کی سرپرستی حاصل ہے۔
بھارت میں غیرہندو مذہبی برادریوں کے ذمہ داران اور عام اشخاص آر ایس ایس کے انتہا پسندانہ طرزعمل اور ہندو توا کی سیاست پر طویل عرصے سے احتجاج کرتے آرہے ہیں۔ گزشتہ برس بھارت کی ایک سو سے زائد اہم شخصیات نے صدر اور وزیراعظم کو لکھے گئے خط میں واشگاف الفاظ میں متنبہ کیا تھا کہ آر ایس ایس اور دوسری انتہا پسند تنظیموں کی سرکار کی جانب سے سرپرستی بھارت کے سیکولر آئین اور وسیع المشرب سماج کے لئے خطرہ ہے۔ اہم شخصیات کے خط میں اس بات کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھاکہ اگر مودی حکومت نے غیر ہندو مذہبی برادریوں کے خلاف ہونے والی کارروائیوں کی سرپرستی کا سلسلہ ترک نہ کیا تو آگے چل کر یہ تقسیم بھارت کے حساس ذمہ داریوں والے اداروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ رواں سال دہلی میں ہوئے ہندو مسلم جھگڑے میں گزشتہ برس کی طرح سکیورٹی فورسز نے جس طرح ہندو بلوائیوں کی سرپرستی کی اس نے بھارت کے فہمیدہ حلقوں کو یہ کہنے پر مجبور کردیا کہ مودی سرکار بھارت میں ہندوئوں کے علاوہ کسی کا وجود برداشت کرنے پر آمادہ نہیں۔ بھارت کی عیسائی برادری کو بھی مختلف ریاستوں میں امتیازی سلوک کی شکایات ہیں۔ حال ہی میں انسانی حقوق کی عالمی تنظیم نے بھارت میں اقلیتوں کی حالت زار پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا بھارتی مسلمانوں اور دلتوں کے خلاف انتہا پسندوں کی کارروائیوں کو حکومتی سرپرستی حاصل ہے۔ بھارتی حکومت اپنی پالیسی پر نظرثانی کرے ۔ مسلمانوں، دلتوں اور عیسائیوں کے بعد اب بھارت کی سکھ برادری کو بھی آر ایس ایس، دوسری انتہا پسند ہندو تنظیموں اور بی جے پی کی علاقائی حکومتوں کے امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ شرومنتی گردوارہ پربندھک کا یہ کہنا بجا طور پر درست ہے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے لئے مناسب ہوگاکہ دونوں اس امر کو مدنظر رکھیں کہ کثیر المذہبی معاشرے میں کسی ایک مذہب کی جتھا گیری کے ذریعے بالادستی کے قیام کی سوچ سکھوں کے ذہنوں میں عدم تحفظ پیدا کرنے کا موجب بنے گی۔ مذہبی عدم تحفظ کے احساس سے جنم لینے والے ردعمل کے بھارتی وحدت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ ایس جی پی ایس کے اس انتباہ پر آر ایس ایس اور بی جے پی کے ذمہ داران غور کرتے ہیں یا عددی اکثریت کے زعم اور حکومتی طاقت کے بل بوتے پر منفی رویوں پر عمل جاری رکھتے ہیں فی الوقت کچھ کہنا قبل از وقت ہے البتہ اس حوالے سے یہ بات بہت واضح ہے کہ ہندو توا اور دھرمی بالادستی کے بے لگام جنون کو جس طور بی جے پی کے ادوار میں آگے بڑھایا گیا اس کے بھارتی سماج پر بہت زیادہ منفی اثرات مرتب ہوئے۔ مسلمانوں، دلتوں اور عیسائیوں کے بعد سکھ برادری کی جانب سے عدم تحفظ کا اظہار اس بات کی نشاندہی کرتاہے کہ سیکولر بھارتی سماج اور نظام کی باتیں اب صرف کتابی باتیں ہی ہیں عملی طور پر بی جے پی سرکار نے بھارت کو ہندو مذہبی ریاست بنانے کی طرف سفر شروع کررکھا ہے۔ یہ سفر اگر مزید جاری رہا تو نتیجہ وہی نکلے گا جس کی طرف شرومنتی گردوارہ پربندھک کمیٹی نے بھارتی حکومت، آر ایس ایس اور بی جے پی کو لکھے گئے خط میں متوجہ کیا ہے۔ یہ کہنا غلط نا ہوگا کہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور دیگر سماج سدھاروں کو اس صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے مشترکہ طور پر بھارتی حکومت پر دبائو بڑھانا چاہیے تاکہ بھارت کی بی جے پی سرکار بھارتی آئین کے مطابق معاملت کرے نہ کہ آر ایس ایس کے ایجنڈے کے مطابق دیکھنا یہ ہے کہ کیا بھارتی سماج کی سیکولر شناخت کو برقرار رکھنے والے طبقات آنے والے دنوں میں بی جے پی کے خلاف نئے سیاسی اتحاد کا ڈول ڈالتے ہیں جس کی ضرورت کی جانب حال ہی میں عام آدمی پارٹی کی قیادت نے دوسری جماعتوں کو متوجہ کیا ہے۔

مزید پڑھیں:  بھارت کا مستقبل امریکہ کی نظر میں