5 77

وفاقی کابینہ میں غیرمنتخب افراد کی بڑی تعداد کیوں؟

تحریک انصاف کی حکومت پر ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ وفاتی کابینہ میں بڑی تعداد معاونین خصوصی یا نان الیکٹڈ اراکین کی ہے۔ وفاقی کابینہ 26وفاقی وزراء ‘ چار وزرائے مملکت’ پانچ ایڈوائزرز اور 14معاونین خصوصی پر مشتمل ہے’ یعنی 30منتخب نمائندوں کے مقابلے میں 19غیر منتخب افراد کو کابینہ میں نمائندگی دی گئی ہے۔ معاونین خصوصی میںسے ایک علی نواز اعوان ایم این اے ہیں’ اس اعتبار سے منتخب اراکین کی تعداد 31بنتی ہے۔ اب ذرا ایک نظر خصوصی معاونین کے ناموں اور ان کو تفویض کردہ محکموں پر بھی ڈال لیں تاکہ اندازہ لگایا جا سکے کہ کیوں ان افراد کی خدمات مستعار لی گئی ہیں۔ محترمہ ثانیہ نشتر کو سماجی تحفظ اور غربت کے خاتمے کیلئے وزیراعظم کا معاون مقرر کیا گیا ہے۔ ثانیہ نشتر کو 2005ء میں ستارہ امتیاز سے نوازا گیا تھا’ وہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور ورلڈ اکنامک فورم سمیت 9سے زائد عالمی اداروں کے بورڈز کی رکن ہیں۔ بحیثیت سربراہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام اور احساس کفالت پروگرام ان کی کارکردگی کو تحسین کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ محمد ارباب شہزاد کا پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس سے تعلق رہا ہے اور وہ چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا اور آزاد کشمیر رہنے کے علاوہ فیڈرل سیکرٹری کامرس اور سیفران بھی رہے ہیں۔ بحیثیت فیڈرل سیکرٹری سیفران 2017ء کی فاٹا ریفارمز میں ان کا کلیدی کردار رہا ہے۔ انتظامی سروس کا وسیع تجربہ رکھنے کی وجہ سے وہ اسٹیبلشمنٹ کے معاملات میں معاونت کیلئے وزیراعظم کی بہترین چوائس قرار دئیے جا سکتے ہیں۔ مرزا شہزاد معاون خصوصی برائے احتساب ہیں ‘ وہ نیب کے سپیشل ڈپٹی پراسیکوٹر رہے ہیں ‘ چنانچہ ان کی تعیناتی احتساب کے ضمن میں ان کی سابقہ اہلیت کو مدِنظر رکھ کر کی گئی ‘ یہ پہلا موقع ہے جب کسی وزیراعظم نے احتساب کیلئے اپنا معاون خصوصی مقرر کیا ہے۔ سید ذوالفقار علی بخاری المعروف زلفی بخاری اوورسیز اور ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ کیلئے معاون خصوصی ہیں۔ وہ ایک اوورسیز پاکستانی ہیں جو بیرونی ملک کاروبار کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں ‘ اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل اور پاکستان کے ہیومن ریسورس کو بیرون ملک ملازمتیں دلوانے کیلئے وہ وزیراعظم کی چوائس بنے’ 24ستمبر 2018ء کو محکمے کا چارج سنبھالنے کے فوری بعد انہوں نے اوورسیز پاکستانیوں کی ویلفیئر کیلئے متعدد اقدامات اُٹھائے جن میں متحدہ عرب امارات کی حکومت کیلئے پاکستانی قیدیوں کی رہائی کا میکنزم طے کرنا اور باہر جانے والے مزدوروں کیلئے نائیسکوپ کی شرط کا خاتمہ اور قطری حکومت کیساتھ ہنرمند اور غیرہنرمند پاکستانیوں کیلئے ایک لاکھ ملازمتوں کے حصول کی بات چیت نمایاں رہی۔ کرونا وائرس کی وبا کے نتیجے میں بیرون ملک پھنسے ہوئے پاکستانیوں کو وطن واپس لانے کیلئے انہوں نے جو کوششیں کی ہیں انہیں سب نے سراہا ہے۔
شہزاد قاسم کی بطور معاون خصوصی تعیناتی پاور سیکٹر کیلئے تھے۔ شہزاد قاسم یونیورسٹی آف پنسلوانیا سے فارغ التحصیل ہیں۔ انہوں نے توانائی اور پالیسی مینجمنٹ میں ماسٹرز ڈگری حاصل کر رکھی ہے’ وہ AESکارپوریشن میں سینئر ایگزیکٹو پوزیشن میں رہے اور انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسر کمپنی NGPکے وائس چیئرمین بھی رہے۔ بعد ازاں انہیں منزل ریسورسز کی ڈویلپمنٹ اور مارکیٹنگ کا معاون خصوصی بنا دیا گیا ہے۔ علی نواز اعوان اسلام آباد سے منتخب ایم این اے ہیں ‘ انہیں کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے معاملات کے حوالے سے وزیراعظم کا معاون خصوصی بنایا گیا ہے۔ محمد عثمان ڈار سیالکوٹ کے انتخابی حلقہ سے تحریک انصاف کے امیدوار تھے مگر انتہائی کم مارجن سے مسلم لیگ ن کے خواجہ آصف سے ہار گئے’ انہیں امور نوجوانان کیلئے وزیر اعظم کا معاون خصوصی بنایا گیا ہے اور وہ اس ذمہ داری کو بخوبی نبھا رہے ہیں۔ ندیم افضل گوندل جو ندیم افضل چن کے نام سے زیادہ مشہور ہیں کو پارلیمانی آرڈینیشن کیلئے معاون خصوصی مقرر کیا گیا ہے’ وہ ایک منجھے ہوئے تجربہ کار سیاستدان ہیں جو پارلیمنٹ کے اندر اور باہر اپنی صاف گوئی کی وجہ سے خاصی شہرت رکھتے ہیں۔ سردار احمد رند جو بلوچستان اسمبلی میں تحریک انصاف کے رکن اسمبلی ہیں کو بلوچستان میں آبی وسائی ‘ توانائی اور پیٹرولیم کی سرگرمیوں کے حوالے سے وزیراعظم نے اپنا معاون خصوصی مقرر کر رکھا ہے۔ ڈاکٹر ظفر مرزا نے عامر محمود کیانی کی جگہ نیشنل ہیلتھ سروسز کی وزارت سنبھالی ‘ معاون خصوصی کی حیثیت سے ان کا تقرر میڈیکل شعبہ میں اعلیٰ معارت کی وجہ سے کیا گیا۔ معاون خصوصی بننے سے قبل وہ گذشتہ 6سال سے جنیو میں واقع عالمی ادارہ صحت (WHO)کے ہیڈ کوارٹر میں پبلک ہیلتھ ٹیم کے سربراہ تھے۔ اپنی پیش رو حکومتوں کے برعکس آج وفاقی کابینہ سیاسی نوازشات کا اکھاڑہ دکھائی نہیں دیتی ہے۔ یہاں ہر شخص کی موجودگی اگرچہ مکمل طور پر اپنے شعبے میں بہترین صلاحیت کے حامل شخص کے طور پر نہیں ہے مگر سیاسی نظام کی مجبوریوں سے ہٹ کر معاونین خصوصی اور مشیر کی حیثیت سے جن افراد کا تقرر کیا گیا ہے وہ اپنے شعبے میں بہترین صلاحیت کے مالک قرار دئیے جاسکتے ہیں لہٰذا وزیراعظم کے اس انتخاب کی تحسین کی جانی چاہیے نا کہ اس پر بے جا تنقید کی جائے۔

مزید پڑھیں:  کور کمانڈرز کانفرنس کے اہم فیصلے