سلیمان بن زیاد سے روایت

اسلام میں ”پناہ دینے” کی اہمیت

سلیمان بن زیاد سے روایت ہے:
”عمر بن ہبیرہ عراق کے گورنر تھے، اس عہدے پر انہیں یزید بن عبدالملک نے مقرر کیا تھا۔ جب یزید بن عبدالملک کا انتقال ہو گیا اور ان کی جگہ ہشام بن عبدالملک خلیفہ نامزد ہوئے تو اسی وقت عمر بن ہبیرہ نے اپنا ایک اندازہ ظاہر کیا کہ ہشام ان دو آدمیوں میں سے کسی ایک کو عراق کا گورنر بنائیں گے،یا تو سعید حرشی کو یا پھر خالد بن عبدالملک کو۔ اگر خالد بن عبدالملک(نصرانی عورت کا بیٹا) کو گورنری دی گئی تو سمجھ لوکہ پھر سب کے لیے مصیبت ہی مصیبت ہے۔
عمر کے اندازے کے مطابق ہشام نے خالد ہی کو گورنر مقرر کر دیا۔جب خالد گورنری کا عہدہ ملنے کے بعد عراق کی جانب روانہ ہوا اور عراق کے شہر”واسط” میں داخل ہوا۔اس وقت عمر بن ہبیرہ اذان دے کر نماز کی تیاری میں مصروف تھے اور آئینہ میں دیکھتے ہوئے اپنا عمامہ سیدھا کر رہے تھے۔عمر اپنی تیاری میں مصروف ہی تھے کہ انہیں اطلاع دی گئی کہ خالد آ گیا۔عمر بن ہبیرہ کہنے لگے:”قیامت بھی ایسے ہی آئے گی۔” اس نے آتے ہی عمر کو گرفتار کیا اور انہیں اُون کا جبہ پہنا دیا۔
عمر نے اس سے کہا: ”خالد! بلاشبہ تم نے اہل عراق سے ابتدائی سلوک کی اچھی روایت نہیں ڈالی۔ تم اس بات سے اس طرح مطمئن ہو کہ تم پر کبھی ایسے حالات نہیں آئیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ گردش زمانہ کبھی تمہیں بھی میرے جیسے ہی حالات سے دوچار کر دے اور تمہیں بھی میری طرح ہی آزمایا جائے؟”
خالد نے عمر کی تمام باتوں کو سنی ان سنی کرتے ہوئے انہیں قید خانے میں ڈلوا دیا۔ جب قید کا عرصہ طویل ہو گیا تو عمر کے غلاموں نے انہیں رہا کروانے کے لیے ایک منصوبہ بنایا۔ انہوں نے سوچا کہ کسی طرح جیل کی دیواروں میں نقب لگا کر انہیں اس مشکل سے آزاد کرا دیں۔ چنانچہ اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انہوں نے قید خانے کے قریب ہی ایک مکان کرایے پر حاصل کیا اور پھر اس میں جیل سے قریب والی دیوار پر ایک بڑا نقب لگا لیا۔اسی طرح ایک اور مکان انہوں نے شہر”واسط” کی فصیل کے نزدیک حاصل کیا اور اس میں بھی ایک بڑا سوراخ کر دیا۔
وہ رات آ گئی جس روز انہیں کارروائی کرنی تھی اور جب ان کی بنائی ہوئی سرنگ جیل تک پہنچ گئی تو انہوں نے عمر سے کہا کہ اب وہ آرام سے نکل جائے، خطرے کی کوئی بات نہیں، عمر اپنے غلاموںکی ہدایت کے مطابق جیل میں لگے سوراخ سے باہر آیا اور حسبِ توقع کچھ نہیں ہوا۔ پھر وہ جیل کی دیوار کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے اس دیوار تک پہنچ گیا جہاں شہر کی فصیل آتی ہے۔ وہاں پہلے سے ہی ایک بڑا سوراخ کیا ہوا تھا۔اس میں سے عمر بآسانی باہر نکل گیا۔ جیسے ہی وہ شہر سے باہر پہنچا،سبک رفتار گھوڑے ان کے انتظار میں کھڑے تھے جو انہیں لے کر ہوائوں کی طرح اڑ گئے۔
صبح لوگوں کو پتا چلا کہ عمر رات کی تاریکی میں فرار ہو گیا ہے۔خالد کو اس بات کی اطلاع دی گئی تو اس نے سعید الحرشی کو پیچھے دوڑایا، تاکہ اسے دوبارہ گرفتار کر کے لے آئے۔سعید نے عمر کو مقام فرات کے قریب جا کر پکڑ لیا، لیکن رشتہ داری کی وجہ سے انہیں چھوڑ دیا۔
فرزدق شاعر نے اس واقعے سے متاثر ہو کر کچھ اشعار کہے، جس کا مفہوم یہ ہے:
١۔ جب میں نے دیکھا کہ زمین کے اوپر کا حصہ میرے لیے تنگ ہو گیا اور اب اس کے اندرونی حصے میں ہی میرے لیے نجات ہے۔
٢۔ تو میں نے اس ذات کو پکارا جس کو حضرت یونس علیہ السلام نے تین اندھیروں میں رہ کر پکارا تھا۔
٣۔جیل سے بھاگنے کی بے وقوفی نے تم پر مزید یہ احسان نہیں کیا کہ تم ٹیڑھے لوگوں کے اور قریب ہو گئے ہو۔
٤۔ اور تم نے پوری رات چلتے چلتے صبح کی اور ایسا چلے کہ کوئی بھی رات میں اس طرح نہیں چلا ہو گا۔
ابن ہبیرہ کا غلام کہتا ہے:
”جس وقت عمر بن ہبیرہ جیل سے فرار ہوئے اس وقت میں بھی ان کے ہمراہ تھا۔
ہم چلتے چلتے دمشق جا پہنچے۔ مسلمہ بن عبدالملک نے آ کر عمر کو پناہ دی اور اپنے گھر میں ٹھہرایا، مسلمہ نے فجر کی نماز امیر المؤمنین ہشام کے پیچھے ادا کی۔ نماز سے فارغ ہو کر جب امیر المؤمنین قصر خلافت میں تشریف لے گئے تو مسلمہ نے ان کے پاس آنے کی اجازت چاہی۔اجازت ملنے پر وہ اندر تشریف لے گئے۔
ہشام کہنے لگے:”ابو سعید! میرے خیال میں ابن ہبیرہ نے رات کو آپ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔”
مسلمہ: ”جی ہاں امیر المؤمنین! لیکن میں اسے پناہ دے چکا ہوں۔البتہ میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ مجھے ابن ہبیرہ ہبہ فرما دیں!”
ہشام: ”جائو!میں نے تمہیں وہ ہبہ کر دیا۔”
اس واقعہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ مشکلات و مصائب اللہ پاک کی طرف سے آتے ہیں، انسان کو مصائب میں مبتلا ہو کر ہمت نہیں ہارنی چاہئے اور تدبیر اختیار کرنا نہیں چھوڑنا چاہئے اور نہ ہی اس طرح کرے کہ ہاتھ پہ ہاتھ دھرکہ بیٹھ جائے اور مایوس ہو جائے بلکہ اس مصیبت سے نکلنے کی راہ تلاش کرنی چاہئے۔اور اللہ تعالیٰ سے عاجزی و انکساری کے ساتھ دعاگو ہونا چاہئے تو اللہ تعالیٰ ضرور مدد فرمائیں گے۔(راحت حال کیجئے)