سیاست اور عوام کے مسائل

یہ بات اب شایدکسی بھی صاحب شعورسے پوشیدہ نہیں کہ سیاست اپنے لفظی واصطلاحی دونوںمعنوں کے لحاظ سے عوام کی خدمت اوران کی زندگی اہم اورضروری مسائل خوش اسلوبی کے ساتھ حل کرنے کا نام ہے ۔ اسی اصول و فلسفہ پرعمل کرتے ہوئے یاران تیز گام نے محمل کو جالیا’اور ہم محونالۂ جرس کارواںرہے ۔
سکینڈے نیویئین ممالک اور انگلینڈ ‘ فرانس اور جرمنی وغیرہ جیسے رفاہی ریاستوں میںعوام کے بنیادی حقوق کی حفاظت کے حوالے سے سیاستدانوں کی دن رات محنت و جدوجہد کو سنتے اور دیکھتے ہیںتواپنے ملک کے حالات کے سبب سر پیٹنے کوجی چاہتا ہے ایک زمانہ تھا کہ مغرب تاریکیوں میںڈوباہوا تھا اوران کی معاشرتی اور سماجی حالت بالکل ہم جیسی تھی ۔ لندن جیسے شہر میں سورج غروب ہونے کے بعد چاقو برداراور سیخ والے پستولوں کے ساتھ کھلے عام لوگوں کواسی طرح لوٹ لیتے تھے جس طرح ایک مدت سے روشنیوں کے شہر کراچی میں جاری ہے ۔ لندن کی گلیوں میں بارش کی صورت میں گہری کیچڑ کے سبب لوگ گھٹنوں گھٹنوں دھنس جایا کرتے تھے ‘ اورپھر انہوں نے سپین(اندلس) میں مسلمانوں کی بود و باش سے سیکھ کراپنے ہاں بڑی تبدیلی یہ لیکر آئے کہ مغرب سے نوجوان جوق درجوق اندلس آکر حصول تعلیم میں مگن ہوئے ۔ وہاں کی تہذیب و تمدن سے صفائی ستھرائی ‘ نظم وضبط ‘ دیانت وامانت کے ساتھ ساتھ سٹیم باتھ اور روشن گلیوںاور کشادہ ووسیع و ہوادار مکانات کی تعلیم وتعمیر سیکھتے چلے گئے ۔ یوں بتدریج آج کایورپ وجود میں آیا ‘ اور حقیقت یہ ہے کہ آج کے یورپ کی بات ہے ‘ دوعظیم جنگیں و اتحاد نے سوشلزم کے مارے مشرقی یورپ کوکس خوبصورتی سے سنبھالا دیا ہے ۔ نظام اور طرز حکومت کی کیا بات ہے ۔ معمولی باتوں ‘ کوتاہیوں اورغلطیوں پراچھے اچھے مستعفی ہو جاتے ہیں۔ پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ سے باہر ہماری طرح جوتیوں میں دال نہیں بٹتی۔
تعلیم ‘ صحت ‘ امن عامہ اور عوام کوبنیادی ضروریات کی فراہمی میں وہاں کی سیاسی جماعتیں فاستبقوالخیرات(نیکی میں آگے نکلنے کے لئے دوڑ لگائو) کی مصداق بنی ہوئی ہیں ‘ اور خیرسے ایک ہم ہیں کہ سیاست کوایک مبغوض وغلیظ شے بناکر رکھ دیا ہے ۔ سیاستدانوں کے پاس عوام کے لئے صرف انتخابات کے دوران صرف اتنا وقت و احساس ہوتا ہے کہ ان سے ووٹ کسی نہ کسی سبزباغ کے ذریعے ہتھیا سکیں’ اور پھر پارلیمنٹ میں پہنچنے کے بعد مڑ کر عوام کی حالت زار پرافسوس کرنے کی فرصت بھی نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ ستر برس گزرنے کے بعد پاکستان میں عوام جس اذیت وکرب میںمبتلا ہے شاید جنوبی ایشیاء کے کسی اورملک میں ہو۔ سیاسی جماعتوں کے اکابرین ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے روادار نہیں ‘ عمران خان کی سیاست میں آمد سے قبل مسلم لیگ نون اور پی پی پی کے اکابرین کے درمیان جلسے جلوسوں اور نجی محافل میں جوکچھ کہا اور کہلوایا جاتاتھا کسی مہذب ملک میں اس کا تصور بھی ممکن نہیں۔ اب گزشتہ تین ساڑھے تین برس کی پی ٹی آئی حکومت کے بعد پاکستان میں جس انداز سے پارلیمنٹ وجود میں آئی ہے وہ اپنی نوعیت کی بس ایک بے مثال حکومت ہے ۔ سندھ ہائوس میں پچیس پی ٹی آئی اراکین کی خریدو فروخت کو ایک طرف بھی رکھیں تو کیا دنیامیں ایسا بھی کوئی جمہوری نظام اور پارلیمنٹ موجود ہے ‘ جہاں اقلیت اقتدار میں ہو اور اکثریت پارلیمنٹ سے مستعفی ہو کرسڑکوں پرمحو احتجاج ہو۔ پارلیمنٹ بغیر اپوزیشن کے ”اپنی کارروائیوں میں مصروف ہو ‘ شہباز سپیڈ اور 13 جماعتوں کی متحدہ ”حکومت کوخوب اور انوکھا ومنفرد موقع میسرآیا ہے کہ جو ان کے جی آئے میں آئے ‘ بل پیش کرتے ہیں اور منٹوں میں پاس کروا کر سینٹ میں بھیج دیتے ہیں ‘ کمال کی پارلیمنٹ کہ شخصی ضروریات کی بنیاد پر قانون سازی دستیاب ہے ۔ عوام اور ان کے مسائل جائیں بھاڑ میں ‘ ان کوتوشہ خانہ اور شوشہ خانہ سے فرصت نہیں۔یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیںکہ چیئرمین سینٹ کے انتخاب میں اکثریت کواقلیت میں تبدیل کیاگیا ہمارے ہاں سیاست بس کامیابی اور کرسی کا ہے اصول کانہیں۔
عمران خان کوایف آئی آر اور لانگ مارچ سے فرصت نہیں۔ملک میں شدید مہنگائی کے ہاتھوں عوام نفسیاتی عوارض کے شکار ہو رہے ہیں ‘ سفید پوش طبقات کواپنی سفید پوشی کابھرم رکھنا مشکل ہو رہا ہے ‘ تعلیم اور صحت کے مسائل گھمبیر سے گھمبیر تر ہوتے جارہے ہیں ‘ اور اللہ خیر کرے ‘ ایک دفعہ پھر خیبر پختونخوا کے پختونوں کا امتحان شروع ہوچکا ہے ‘ پختونخوا کی پختون قیادت صوبے کے مفادات کے تحفظ اور عوام کی جان ومال کی حفاظت کے لئے متحد ہوتی نظر نہیں آتی’ جبکہ 9/11 سے لے کر آج تک پختونوں پر جو گزری سو گزری ‘ مزید کسی مہم جوئی کی متحمل یہ قوم نہیںہو سکتی ۔ لہٰذا سیاستدانوں سے درخواست ہے کہ خدا کا خوف کرکے عوام کے بنیادی مسائل پرسر جوڑ کربیٹھیں ورنہ ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے ‘ پھر نہ آپ ہوں گے نہ آپ کی سیاست ۔
آگ ہے ‘ اولاد ابراہیم ہے نمرود ہے
کیا کسی کوپھر کسی کا امتحان مقصود ہے

مزید پڑھیں:  بیرونی سرمایہ کاری ۔ مثبت پیشرفت