محاذ آرائی، قومی مسائل نظرانداز!

ملک میں سیاسی کشمکش کا جو کھیل جاری ہے وہ کسی طرح ختم ہونے پر ہی نہیں آ رہا بلکہ روز بروز کوئی نیا شوشہ برآمد ہو جاتا یا کر لیا جاتا ہے، فریقین میں مصالحت کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوئی حتیٰ کہ خود صدر عارف علوی کو اعتراف کرنا پڑا کہ وہ تمام تر کوشش کے باوجود کامیابی حاصل نہیں کر سکے۔ صدر مملکت جنہوں نے برملا کہا عمران خان میرے اچھے دوست ہیں اور میں ان کو لیڈر مانتا ہوں اس کے ساتھ ہی انہوں نے تقرری کے حوالے سے آئینی پوزیشن واضح کی اور بتایا کہ آئین میں یہ واحد اختیار وزیر اعظم کے پاس ہے۔ یہاں تک تو بہت اچھا لگا لیکن جب صدر واضح طور پر کہتے ہیں کہ آئینی حیثیت تو ہے تاہم مشاورت میں بھی کوئی حرج نہیں۔ دوسری طرف وہ جلد انتخابات کے لئے بھی اپنی مثبت رائے کا اظہار کر دیتے ہیں۔ یہ ان کی سادگی ہی سہی لیکن دوسرے فریق کے لئے قابل قبول نہیں کہ ہر دو مطالبات تو عمران خان کے ہیں اس لئے یہاں ڈیڈ لاک ہونا ضروری ہے، اس لئے خود بزبان مصالحت کنندہ کہ اسٹیبلشمنٹ اور تحریک انصاف (عمران خان) کے درمیان بھی غلط فہمی نہیں ہونا چاہئے یہاں بھی وہی مسئلہ آڑے آیا کہ عمران خان کی شرط اول ہی فوری انتخابات اور تعیناتی پر ان کی رائے کو اہمیت دینا ہے ایسے میں مصالحت ہونا تو دور کی بات، بات چیت شروع ہونا ممکن نہیں کہ جب کبھی کسی تنازع کو حل کرنا یا کرانا مقصود ہو تو میز پر کسی پیشگی شرائط کے بغیر آیا جاتا ہے اور جو بھی رائے اور مطالبہ ہو وہ مذاکرات ہی کے دوران پیش کیا جاتا ہے اور پھر ان پر دلائل ہوتے ہیں اور اگر ایک فریق اپنی شرائط منوا کر بات چیت کا عندیہ دے تو پھر کیسے مذاکرات یہ مطالبات تو پہلے ہی پورے ہو جاتے ہیں اس لئے مصالحت کیلئے کوشش اور مذاکرات میں شرکت بھی غیر مشروط ہونا چاہئے اور جو طے ہونا ہے وہ انہی مذاکرات کے دوران ہو جائے گا لیکن ایسا نہیں ہو رہا کہ یہ رادھا کی اس شرط جیسا ہے کہ پہلے نومن تیل لا کہ نہ تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی۔
میں اور مجھ جیسے بے شمار شہری دکھ سے بھرے ہوئے ہیں کہ اس شدت کی محاذ آرائی نے عوامی مسائل کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ میڈیا اب ہر روز بتا رہا ہے کہ سیلاب کو چار مہینے گزر گئے لیکن سندھ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے متاثرہ اضلاع میں زندگی معمول پر نہیں آ سکی۔ ابھی تو برساتی پانی کا اخراج مکمل نہیں ہوا پانچ سے چھ فٹ تک پانی کھڑا ہے اور متعدد علاقوں میں رابطہ بھی بحال نہیں ہو سکا یوں متاثرین دہائی دے رہے ہیں ان کی شنوائی نہیں ہوتی اکثر کی شکایت ہے کہ ان کو امداد بھی نہیں ملی۔ چہ جائیکہ گھروں کی تعمیر کا سلسلہ ہو جہاں جہاں سرکاری امداد تقسیم کی گئی وہاں سے بھی شکایات ہیں کہ تقسیم کرنے والے خورد برد کے مرتکب ہوئے اور سرکاری شرح کے مطابق امداد نہیں دی گئی۔ اس میں سب قصور وار ہیں جنہوں نے سیلاب زدگان کے نام پر امداد جمع کی، یہ صورتحال ان علاقوں میں وبائی امراض کا بھی باعث بنی ہوئی ہے لیکن یہاں امداد نہیں مل رہی دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ یہ متاثرین بھی نچلے طبقات سے تعلق رکھتے ہیں غریب ہیں۔
سیلاب زدگان کی یہ پریشانی اپنی جگہ عام شہریوں کو مہنگائی نے مار دیا ہے اس کا اندازہ یوں لگائیں کہ شہر کی سوغات ہے لڈو پیٹھیاں والے یہ تھوڑا عرصہ پہلے 20 روپے کا ایک اور پھر 25 روپے کا ہوا اب یہ 40 روپے کا ایک ہے اور حجم پرانے دو کے تین بنا کر پورا کیا گیا جب احتجاج کر کے پوچھا گیا تو جواب ملا کہ دال چنا تین سو روپے کلو سے بھی مہنگی ہو گئی ہے یوں مہنگائی پر بھی پوری توجہ نہیں، مختلف اضلاع اور شہروں سے اشیا خوردنی کی قلت کے حوالے سے بھی اطلاعات ہیں ۔
بہت دکھ کی بات ہے کہ کامل اکیاون (51)سال بعد امریکی کانگریس میں دو ریاستوں کے اراکین کی طرف سے ایک قرارداد جمع کرائی گئی جس میں سقوط مشرقی پاکستان کے حوالے سے الزام عائد کیا گیا کہ 1971ء میں پاک فوج نے مذہبی عناصر کے ساتھ مل کر جنگی جرائم کئے میں تفصیل میں نہیں جاتا کہ اس قرارداد میں وہ سب تحریر ہے جو بھارتی لابی کی طرف سے بہتان کے طور پر کہا جاتا رہا ہے اس قرارداد میں پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دینے، عالمی عدالت میں جنگی جرائم کے الزام میں مقدمہ چلانے جیسے مطالبات کئے گئے ہیں یہ قرارداد متعلقہ کانگریس کمیٹی کے سپرد کر دی گئی ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ یہ قرارداد فیصلہ ہونے تک مردہ نہیں ہو سکتی اس میں تاخیر ہو سکتی ہے کہ کمیٹی والے باری پر زیر غور لائیں گے اور اس پر بڑی تفصیل سے غور ہو گا تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا جانے اور پھر اکثریتی رائے کے ساتھ ایوان میں پیش ہو گی جہاں بحث ہونے کے بعد فیصلہ ہوگا کہ منظور ہوتی ہے یا نہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ امریکہ میں پاکستان مخالف سرگرم لابی کا یہ کارنامہ ہے کہ دوردراز کی ریاستوں کے ارکان کی طرف سے ایسا کیا گیا دکھ یہ ہے کہ یہاں کسی نے اس کا نوٹس نہیں لیا ہم یہاں سیاسی محاذ آرائی کو شدید تر بناتے چلے جا رہے ہیں۔ اگر ہمارا یہی حال رہا تو ہمارے اندرونی اور بیرونی دشمن تو کامیاب ہو جائیں گے صرف دعاؤں اور بیانات سے قومی مسائل حل نہیں ہوتے اس کے لئے لازم ہے کہ قومی اتفاق رائے بھی ہو جو ہونا چاہئے اور سیاسی جماعتوں کو اپنی انا کو تیاگ کر قومی مصالحت کی طرف بڑھنا ہوگا ورنہ ایسے ملک دشمن اقدامات جاری رہیں گے۔

مزید پڑھیں:  بیرونی سرمایہ کاری ۔ مثبت پیشرفت