tanveer ahmad 1

رنگینیوں میں ڈوب گیا پیرہن تمام

وزیرمملکت زرتاج گل نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کینسر کے حوالے سے جہاں بڑی مفید معلومات فراہم کی وہاں خواتین کے میک اپ پر بھی اعتراض کر دیا، یقینا اس اعتراض میں بڑی جان ہے۔ جہاں تک ہلکے پھلکے میک اپ یا بنائو سنگھار کا تعلق ہے تو بات سمجھ میں آتی ہے یہ سب کچھ خواتین ہی کیلئے ہے اور اس پرکوئی اعتراض بھی نہیں کرتا۔ وہ جو کہتے ہیں کہ زیادتی ہر چیز کی بری ہوتی ہے جب کوئی چیز حد سے بڑھ جاتی ہے تو وہ اپنی ضد میں تبدیل ہوجاتی ہے یہی حال اب خواتین کے میک اپ کا بھی ہے، گلی محلوں میں جگہ جگہ بیوٹی پارلر کھلے ہوئے ہیں اور جس طرح اب شادی کیلئے شادی حال ضروری قرار دیا جاچکا ہے اسی طرح دلہن کیلئے بیوٹی پارلر یاترا کرنا آج کل کی شادیوں کا اٹوٹ انگ ہے۔ میک اپ کے نام پر ہزاروں روپے کمائے جارہے ہیں اس کہانی کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ بیوٹی پارلر کسی بھی جگہ کسی کی بھی اجازت کے بغیر کھولا جاسکتا ہے، اس کیلئے باقاعدہ تربیت یافتہ ہونا بھی ضروری نہیں ہے بس اس کیلئے تھوڑی سی چالاکی کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک بہت سی خواتین غیرمعیاری بیوٹی پارلروں کی وجہ سے سکن کی بڑی پیچیدہ بیماریوں میں مبتلا ہوچکی ہیں اور یہی بیماری بعد میں بڑھتے بڑھتے کینسر کی شکل اختیار کرلیتی ہے! اہم بات تو یہ ہے کہ ان بیوٹی پارلرزپر کسی قسم کا کوئی چیک نہیں ہے سب سے پہلے تو انہیں ٹیکس نیٹ ورک میں شامل کیا جانا چاہیے، اس کے علاوہ میک اپ کیلئے جو میٹریل استعمال کیا جاتا ہے اس کو بھی باقاعدہ لیبارٹریزمیں چیک کیا جانا چاہیے سستا اور غیرمعیاری میٹریل جلد کی خطرناک بیماریوں کا سبب بن رہا ہے چونکہ حکومت کی طرف سے ان پر کوئی چیک نہیں ہے اس لئے یہ خوب دھڑلے سے لوٹ مار کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں۔ ان کا طریقۂ واردات بڑا سادہ سا ہے یہ سب سے پہلے شکار کے چہرے پر کافی دیر تک کریم رگڑتے رہتے ہیں، ایک کے بعد دوسری اور پھر تیسری کریم اس عمل کے بعد شکار کے چہرے کی رنگت مکمل طور پر تبدیل ہو جاتی ہے، کئی مرتبہ تو اس طرح ہوتا ہے کہ دلہن کے اپنے بہن بھائی اسے نہیں پہچان پاتے کیونکہ میک اپ کا مصنوعی رگڑا کھانے کے بعد دلہن کے چہرے کی رنگت، بالوں کا سٹائل، بھوئیں پلکیں سب کچھ مکمل طور پر تبدیل ہوجاتا ہے۔ کئی مرتبہ تو دولہا بھائی ولیمے کی صبح اپنی شریک حیات کو نہیں پہچان پاتے! اب بات صرف شادیوں اور دلہن تک محدود نہیں رہی، اب خواتین کسی بھی تقریب میں شرکت سے پہلے بیوٹی پارلر کا ایک آدھ چکر لگانا ضروری سمجھتی ہیں۔ ایک مرتبہ کسی شادی کی تقریب میں خواتین زرق برق لباس پہنے بھرپور میک اپ کیساتھ موجود تھیں کہ اچانک بجلی رخصت ہوگئی، بجلی تو کسی بھی وقت جاسکتی ہے یہ کوئی آپ سے پوچھ کر تھوڑی جاتی ہے، اب حادثہ یہ ہوا کہ شادی حال میں موجود جنریٹر نے چلنے سے انکار کردیا، مستری صاحب کو بلایا گیا تو کہیں بات بنی اور ایک زبردست قسم کی گڑ گڑاہٹ کے بعد جنریٹر صاحب نے اپنا کام شروع کردیا لیکن اس ساری کارروائی میں تقریباً بیس پچیس منٹ گزر چکے تھے، اب گرمی کا موسم (پہلے شادیاں صرف سردیوں میں ہوا کرتی تھیں اب شادی حال بک کروانا ہوتا ہے آبادی میں بھی روز بروز اضافہ ہورہا ہے شادیاں بھی روز ہورہی ہیں اس لئے شادی ہال دو چار مہینے پہلے ہی بک کروایا جاتا ہے اس لئے اب گرمی سردی کی کوئی قید نہیں رہی، اب شادی کی تاریخ شادی حال کی بکنگ کے بعد طے کی جاتی ہے) اور پھر گرمی اور پسینے کا چولی دامن کا ساتھ ہے، اب جناب پچیس منٹ بعد جب بی بجلی تشریف لائیں تو پسینہ اپنا کام کرچکا تھا، بیوٹی پارلرز میں کیا گیا غیرمعیاری میک اپ مکمل طور پر صاف ہوچکا تھا گود میں آرام سے لیٹے ہوئے بچوں نے اچانک رو روکر شادی ہال سر پر اُٹھا لیا کیونکہ انہیں اپنی ماؤں کو پہچاننے میں مشکل پیش آرہی تھی۔ اس طرح کا ایک واقعہ ہمارے ساتھ بھی پیش آچکا ہے، ایک مرتبہ کسی ٹی وی ٹاک شو میں شرکت کرنے کیلئے ٹی وی سٹیشن جانا ہوا، وہاں سٹوڈیو میں داخل ہونے سے پہلے ہلکا سا میک اپ کیا جاتا ہے، ہم نے میک اپ روم میں دو خواتین کو داخل ہوتے دیکھا تو ہم احتراماً باہر کوریڈور میں ٹہلنے لگے کہ خواتین فارغ ہوجائیں تو ہم بھی چہرے پر ہلکا سا پاؤڈر لگوا لیں، جب کافی دیر گزر گئی اور خواتین باہر نہ نکلیں تو ہم بھی وقت کے ضیاع پر بے چینی محسوس کرنے لگے کہ دیکھیں اب یہاں سے کب رہائی ملتی ہے؟ اچانک میک اپ روم کا دروازہ کھلا اور ہمیں اندر آنے کا کہا گیا، ہم نے ان سے کہا وہ خواتین فارغ ہوجائیں تو ہم تشریف لاتے ہیں، انہوں نے کہا وہ تو کب کی جاچکی ہیں ہمارے چہرے پر پھیلی ہوئی حماقت نما حیرانی دیکھ کر انہوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ دراصل میک اپ کے بعد آپ نے انہیں پہچانا نہیںتھا! دراصل یہ وہ تبدیلیاں ہیں جنہیں ہمیں ہر حال میں قبول کرنا پڑتا ہے، وقت کیساتھ ساتھ سب کچھ بدل جاتا ہے، اب دلہن کا گھونگھٹ بھی نہیں رہا، یہ وہ تاریخی گھونگھٹ تھا جو صرف دولہا بھائی ہی اُٹھایا کرتے تھے، اب سب سے پہلے دلہن کا چہرہ مووی بنانے والا دیکھ لیتا ہے، نہ صرف چہرہ دیکھتا ہے بلکہ یہ ہدایت بھی دیتا ہے کہ رونا نہیں ہے ورنہ سارا میک اپ آنسوؤں میں دھل جائے گا۔ اچھی تصویر کیلئے ہلکی پھلکی مسکراہٹ کا تقاضا بھی کرتا ہے، ایک آدھ پوز بھی بنوا لیتا ہے مگر دوستو! ہمارے آپ کے کہنے سے کچھ بھی نہیں ہوتا شادی حال، بیوٹی پارلرز، شادی کی مووی اور دوسری بہت سی چیزیں اب ہماری شادیوں کا اٹوٹ انگ ہوچکی ہیں، ہم نے جان کی امان چاہتے ہوئے صرف یہ عرض کرنا ہے کہ جناب ہر چیز کی حد ہوتی ہے کچھ قاعدے قوانین ہوتے ہیں اگر دائرے کے اندر رہ کر ہو تو چلو کوئی بات نہیں حد سے نہیں بڑھنا چاہئے۔

مزید پڑھیں:  ''چائے کی پیالی کا طوفان ''