علماء کی سیاسی قیادت سے مطالبہ

علماء کی سیاسی قوتوں کو بامعنی مذاکرات کی پیشکش

ویب ڈیسک :خیبر پختونخواکے جید علمائے کرام اور مشائخ عظام نے سیاسی قیادت سے مطالبہ کیا ہے کہ ملک اور قوم کے وسیع تر مفاد میں باہمی اختلافات کو بھلا کر مسائل کا حل مل بیٹھ کر نکالیں۔ انہوں نے پیش کش کی کہ سیاسی قوتوں کے درمیان بامعنی مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کے لئے علمائے کرام اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔
پشاور پریس کلب میں استحکام پاکستان کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف خطیب خیبر پختونخوا اور ممتاز عالم دین مولانا طیب قریشی، علامہ عابد حسین شاکری،مولانا حنیف اللہ،مولانا معراج الدین سرکانی اور مفتی جمیل منصوری نے کہا ہے کہ سیاسی قیادت اس بات کو مد منظر رکھیں کہ ان کی اپس کی لڑائی میں ملک کا نقصان نہ ہو، پاکستان ہے تو ہم سب ہیں اور ہماری سیاست ہے، انہوں نے کہا کہ دشمن ہماری اندرون خلفشار کا فائدہ اٹھانا چاہتا ہے، سیاست دان اختلافات کو زاتی دشمنی میں تبدیل نہ کریں بلکہ مسائل کے حل کے لئے بات چیت کا راستہ اختیار کریں۔مولانا طیب قریشی نے کہا کہ اج کی کانفرنس کا مقصد ملک میں امن واستحکام کے لئے سول و عسکری اداروں سے اظہار یکجہتی کرنا ہے،انہوں نے کہا کہ تمام مسالک کے علمائے کرام ملک اور امت کے مفاد میں مل بیٹھ کر سیاست دانوں کو یہ درس دیتے ہیں کہ سیاسی اختلافات زاتی دشمنی نہیں ہوتے بلکہ مختلف خیالات رکھنے والے ایک دوسرے کو دلائل کے زریعے قائل کریں.
علامہ عابد شاکری نے کہا ہے نیک مقصد کے حصول کے لئے انسان کو بعض اوقات اپنے موقف سے پیچھا ہٹنا پڑتا ہے، تاریخ اسلام سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ پیغمبر اسلام ۖنے کئی مواقعوں پر اپنے موقف میں لچک دکھا کر امت کو پیغام دیا ہے کہ عظیم مقاصد کے لئے پیچھے ہٹنا کمزوری نہیں،مولانا حنیف اللہ نے کہا اتحاد کی اس وقت ضرورت پہلے سے زیادہ ہے، مولانا معراج الدین سرکانی نے کانفرنس کے انعقاد پر چیف خطیب خیبر پختونخو اعلامہ طیب قریشی کو مبارکباد دیتے ہوئے اسے اہم کاوش قرار دیا۔
مفتی جمیل منصوری نے کہا پاکستان میں بسنے والے تمام مذاہب اور مسالک بلا رنگ ونسل اس ملک کے برابر کے شہری ہیں، آئین پاکستان اور دین اسلام تمام شہریوں کو برابر کے حقوق دیتا ہے، انہوں نے کہا کہ مملکت کے تمام شہری ملک میں سیاسی اور سماجی استحکام کے لئے اپنا کردار ادا کریں، کانفرنس کے اخر میں مولانا رفیع عثمانی کے ایصال ثواب کے لئے فاتحہ خوانی کی گئی۔

مزید پڑھیں:  ایران کا پاکستان کے ساتھ تحارتی حجم بڑھانے کا عندیہ