ایران میں رجیم چینج کی کوشش یا کچھ اور؟

ایران میں تین ماہ سے جاری احتجاجی مظاہروں نے اس وقت ایک نیا رخ اختیار کیا جب ایک مشتعل ہجوم نے خمین کے علاقے میں ایرا نی انقلاب کے بانی امام آیت اللہ خمینی کے آبائی گھر کو نذر آتش کیا ۔امام خمینی کا گھر اب ایک میوزیم کے طور پر استعمال ہوتا ہے ۔جس میں انقلاب کے زمانے کی اشیا اور تاریخی کتب موجود ہیں ۔امام خمینی کی رہائش گاہ کو نذر آتش کرنے کی وڈیو بھی بن رہی تھی اور ہجوم دیوانہ وار نعرے بھی بلند کر رہا تھا ۔ امام خمینی کے گھر کو نذر آتش کرنے کی علامتی اہمیت وہی ہے جو1990میںماسکو کے لینن گراڈ میں سرخ انقلاب کے بانی لینن اور عراق پر حملے کے وقت بغداد میں صدام حسین کے مجسموں کو گرانے کی تھی ۔جس سے یہ تاثر دینا مقصود تھا کہ مغرب اب اپنے مقاصد میں کامیاب ہو چکا ہے اور کتابِ ماضی بند ہو چکی ہے ۔ عین اسی روز ایران کے راہبر انقلاب سید علی خامنہ ای نے اعلان کیا کہ ایران میں مظاہرین اور سیکورٹی فورسز پر حملوں کے پیچھے مغربی قوتیں ہیں۔آیت اللہ خامنہ ای کی طرف سے ایران میں گڑبڑ پیدا کرنے کی کوشش کا الزام مغرب پر پہلی بار عائد نہیں کیا گیا بلکہ ایران کی قیادت مسلسل اس الزام کا اعادہ کرتی چلی آرہی ہے ۔ایران میں پرتشدد مظاہروں کی حالیہ لہر کا آغاز ستمبر میں اس وقت ہوا جب ایک کرد لڑکی مہیسا امینی پولیس حراست میں انتقال کر گئی ۔اس واقعے سے ایران کی نئی نسل مشتعل ہوگئی اور مظاہروں کا سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا ۔ایرانی حکومت نے روایتی سخت گیری کے ذریعے ان مظاہروں کو کچلنے کی کوشش کی مگر ابھی تک اس میں ناکامی ہوئی اور مظاہروں کا سلسلہ دنیا بھر تک دراز ہوگیا ۔اب تک اس احتجاج میں تین سو افراد مارے جا چکے ہیں اور ہزاروں افراد گرفتار ہیں ۔حکومت کی طرف سے پانچ افراد کو سزائے موت بھی سنائی جا چکی ہے۔ایران میں رجیم چینج کی کوششیں امریکہ اور یورپ کا اتنا ہی پرانا خواب ہے جتنا کہ خود انقلاب ایران ۔ایران امریکہ کا ایک مضبوط اڈہ تھا جہاں سے عرب وعجم پر گہری نظر بھی رکھی جاتی تھی اور مقاصد کو بھی آگے بڑھایا جاتا تھا ۔قدامت پسند عربوں اور پاکستان وافغانستان کے پہلو میںایران مغربی تہذیب کا ایک مضبوط مرکز بھی تھا ۔یہاں سے مغربی تہذیب کی ”روشنی” کی کرنیں پاکستان افغانستان اور لبنان جیسے عرب ملکوں تک پھیل رہی تھیں ۔اسی ردعمل میں ایران میں علماکی قیادت میں قُم سے ایک تحریک چلی جو مغربی تہذیب اور امریکی مقاصد کے لئے چیلنج بنتی چلی گئی۔اس کشمکش کا نتیجہ1979میں انقلاب ایران کی صورت میں برآمد ہوا ۔یہ انقلاب ایران میںا مریکی اثرات کے خاتمے کا باعث بھی بنا ۔تہران میں انقلابیوں نے امریکی سفارت خانے پر حملہ کرکے سفارتی عملے کو یرغمال بنا لیا اور یہ ایک اضافی سُبکی تھی جس سے امریکہ کی انا زخمی ہو کر رہ گئی۔اس کے بعد سے ایران اور امریکہ ایک مسلسل کشمکش میں رہے اور امام خمینی مغربی طاقتوں اور تہذیب کے کڑے ناقد رہے۔مغرب کے پسندیدہ سلمان رشدی کے
قتل کے فتوے کے بعد حالات مزید بگڑتے چلے گئے ۔امریکہ نے ایران میں رجیم چینج کی کوششیں کبھی ترک نہیں کی۔اس کے باجود یوں لگتا ہے کہ ایران کی قیادت انقلاب کو اپنی نئی نسل کے ساتھ ہم آہنگ اور اسے بدلتے وقت کے تقاضوں کے مطابق نہ بنا سکی ۔ایک غبار نئی نسل کے دلوں میں موجود ہے جو وقفے وقفے سے باہر آتا ہے۔مغرب کا اس حالت سے فائدہ اُٹھانا فطری ہے۔آج ایران اور پاکستان میں دو الگ پس منظر اور مزاج کی تحریکیں چل رہی ہیں ۔ایران میں حکام کے بقول مغرب کی حمایت سے رجیم چینج تحریک چل رہی ہے اور پاکستان میں سات ماہ سے امریکہ کی حمایت سے ہونے والی رجیم چینج کے خلاف زوردار تحریک چل رہی ہے ۔پاکستان میں امریکہ اپنے مقاصد میں کامیاب تو ہو چکا ہے مگر یہاں اسے سیاسی اور عوامی سطح پر شدید مزاحمت کا سامنا ہے ۔ایران میں امریکہ خیمے میں سر دینے کی کوشش میں ہے۔یہ ایک عجیب صورت حال ہے ۔مغرب پاکستان میں عرب سپرنگ یا ایران مظاہرین کی طرز پر جس تحریک کا خواہش مند تھا وہ کھیل قطعی اُلٹ کر رہ گیا ۔ایران کی طرح پاکستان کی نسل نو کے غصے کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے بالادست طبقات نے اس نسل کے جذبات کو سمجھا نہ سسٹم کو بدلتے وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا اور نتیجے کے طور پر پچہتر سال بعد ملک اُجڑے دیار کا منظر پیش کر رہا ہے ۔

مزید پڑھیں:  ڈیٹا چوری اور نادرا؟