علماء اور ماہرین کی رائے لی جائے

ایک جانب جہاں ضلعی انتظامیہ سپین جماعت کو مخدوش قرار دے کرمنہدم کرنے کی تیاری کر رہی ہے وہاں دوسری جانب میئر پشاور نے اعلان کیا کہ پشاور کی کیپیٹل میٹروپولیٹن گورنمنٹ سپین جماعت کے انہدام کی بجائے اس کی تزئین و آرائش پر ڈیڑھ کروڑ روپے خرچ کرے گی۔ سپین جماعت کے حوالے سے مقامی رہنمائوں اور علماء پر مشتمل کمیٹی کا اجلاس میں شرکت کے بعد میئر پشاور زبیر علی نے کہا کہ ضلعی انتظامیہ کا رویہ واضح کررہا ہے کہ یہ سیاسی دبائو ہے جو کسی طور قبول نہیں کیا جائے گا سپین جماعت کے حوالے سے جوبھی بات کی جائے وہ سپین جماعت ہی میں سب کی موجودگی میں ہو گی۔دریںاثناء صوبائی حکومت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اگرمیئر پشاور” سپین جماعت” مسجد کو شہیدکرانا نہیں چاہتے تو اس کی ذمہ داری لیں۔ سپین جماعت کے حوالے سے کمشنر پشاور کی جانب سے عرصہ قبل مسجد کو شہیدکرانے کے اعلان پر رد عمل کے بعد کچھ عرصے کے لئے مسئلہ دب گیا تھا ایک مرتبہ پھر ڈپٹی کمشنر پشاور اس ضمن میں متحرک ہیں جو صوبائی حکومت کی ایماء اور مرضی کے بغیر ممکن نہیں بہرحال اس معاملے پر حکومت اور علمائے کرام آمنے سامنے آگئے ہیں جو مناسب امر نہیں سرکاری طور پر دو متضاد موقف بھی احسن صورتحال نہیں ایک نازک مسئلے پر یوں کھلے عام اختلافات کے اظہار کی بجائے مشاورت کا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے اس مسئلے کا حل اتنا سہل ہے اور نہ ہی صوبائی حکومت یا ضلعی انتظامیہ بغیر مشاورت کے کوئی قدم اٹھا سکتی ہے ہمارے تئیں یہ مسئلہ تنازعہ کا نہیں بلکہ باہم گفت و شنید اور مذاکرات کامتقاضی ہے کہ آیا واقعی مسجد کی عمارت اتنی مخدوش اور خطرناک ہوچکی ہے کہ خدانخواستہ انہدام کا خطرہ ہو اس ضمن میں مسجد کی انتظامیہ اور علمائے کرام پر رائے مسلط کرنے کارویہ مناسب نہیں بلکہ صوبائی حکومت اور علمائے کرام و متولیان مسجد سبھی اپنی جانب سے ایک ایک ماہر تعمیرات اور انجینئر نامزد کریں تین چار چھ جتنے بھی ضروری ہوں ماہرین کی ایک ٹیم عمارت کاجائزہ لے کر اپنی رپورٹ پیش کرے اس کے بعد جب اس کو شہیدکرنے اور تعمیر نو کا مرحلہ آئے تو اس وقت بھی شرعی تقاضوں کوپورا کرتے ہوئے فیصلہ کیا جائے تو اس پر کوئی تنازعہ پیدا نہیں ہو گا یکطرفہ طور پر کوئی بھی فیصلہ بلاوجہ کی کشیدگی کا باعث بن سکتا ہے جس سے گریز کیا جانا چاہئے ۔
یکساں خطبہ جمعہ
طالبان نے ملک بھرکی مساجد میں نمازجمعہ کے دوران ایک ہی خطبہ دینے کا حکم دے دیا ہے وزارت حج و اوقاف کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ملک کی مساجد کی آئمہ اورمبلغین کے لئے ایک متفقہ خطبہ کااہتمام کیاگیا ہے جس میں خطبہ کے ستون ‘ روایات اور آداب کودیکھا گیا ہے ۔ متفقہ خطبے کی منظوری امارت اسلامیہ افغانستان کی اتھارٹی نے دی ہے ۔سعودی عرب میں یہ طریقہ کار پہلے ہی مروج ہے ممکن ہے دیگراسلامی ممالک میں بھی اس طریقہ کار پرعمل ہو رہا ہو بہرحال یہ ایک احسن روایت ہے افغانستان میںاس ہدایت کے بعد تو اس ضمن میں تنقید اوراعتراض کی بھی گنجائش نہیں دیکھا جائے توپاکستان میں اس طرح کے یکساں خطبہ جمعہ کی زیادہ ضرورت اس لئے ہے کہ ہمارے بعض مساجد میں تو جمعہ کی تقاریر کا موضوع موزوں نہیں ہوتا اس ضمن میں حکومت کی جانب سے خطبہ جمعہ کا موضوع لینے پر اگر علمائے کرام اتفاق نہ بھی کریں توباہم کوئی کمیٹی یا باڈی تشکیل دے کر علمائے کرام خود ہی موضوع پراتفاق کے بعد مواد جاری کرنے کی ذمہ داری نبھا سکتے ہیں اسی طرح اگر علمائے کرام اذان دینے کاوقت بھی اپنے اپنے شہروں اور علاقوں میںایک ہی وقت مقرر کرنے پراتفاق کریں تو یہ احسن ہو گا۔
صائب مشورہ
خیبر پختونخواکے جید علمائے کرام اور مشائخ عظام کی جانب سے سیاسی قیادت سے ملک اور قوم کے وسیع تر مفاد میں باہمی اختلافات کو بھلا کر مسائل کا حل مل بیٹھ کر نکالنے کا مشورہ قابل غور امر ہے۔علماء کی جانب سے پیش کش کی گئی ہے کہ وہ سیاسی قوتوں کے درمیان بامعنی مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔علماء نے بجا طور پراس امر کی نشاندہی کی ہے کہ سیاستدانوں کی آپس کی لڑائی میں ملک کا نقصان نہ ہو، پاکستان ہے تو ہم سب ہیں اور ہماری سیاست ہے، انہوں نے کہا کہ دشمن ہماری اندرون خلفشار کا فائدہ اٹھانا چاہتا ہے، سیاست دان اختلافات کو ذاتی دشمنی میں تبدیل نہ کریں بلکہ مسائل کے حل کے لئے بات چیت کا راستہ اختیار کریں۔انہوں نے کہا پاکستان میں بسنے والے تمام مذاہب اور مسالک بلا رنگ ونسل اس ملک کے برابر کے شہری ہیں، آئین پاکستان اور دین اسلام تمام شہریوں کو برابر کے حقوق دیتا ہے، انہوں نے اپیل کی ہے کہ مملکت کے تمام شہری ملک میں سیاسی اور سماجی استحکام کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔معاشرے میں علمائے کرام کے کردار اور عمل اور ان کی رہنمائی کی افادیت اور پر اثر ہونے سے انکار کی گنجائش نہیں علمائے کرام نے ہر آڑے وقت میں ملک و قوم کی خدمت اور رہنمائی کا کردار احسن انداز میں ادا کیا ہے ۔ جاری سیاسی صورتحال میں ان کی تشویش بجا اور ہر پاکستانی کے دل کی آواز ہے ۔ سیاست کے نام پر جس طرح ملکی معاشرے کو تقسیم درتقسیم کرنے کاسلسلہ جاری ہے اور خاص طور پر جس قسم کے نفرت کوہوا دی جارہی ہے وہ قابل تشویش امرہے جس کی طرف علمائے کرام نے توجہ دلائی ہے توقع کی جانی چاہئے کہ علمائے کرام کی اپیل کا سیاستدان مثبت جواب دیں گے اور نفرت کی سیاست کی بجائے حقیقی جمہوری سیاست ہو گی اور سیاسی اختلافات کو ذاتی ا ختلافات اور دشمنی کادرجہ نہیں دیا جائے گا۔

مزید پڑھیں:  ایک آزاد پرندہ ہوں جہاں چاہوں اڑوں