غلطی تسلیم کرنے کارواج نہیں

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ لیڈر وہی ہے جو اپنی غلطی تسلیم کرے، لیڈرشپ کی مختلف صلاحیتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ مشکل فیصلے کرتا ہے اور مشکل فیصلہ درست ثابت ہو جائے تو ٹھیک ورنہ غلط ثابت ہونے کی صورت میں غلطی کو تسلیم کرتا ہے، جو اپنی غلطی تسلیم نہ کرے وہ لیڈر ہی نہیں۔آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ان خیالات کا اظہار پاکستان کرکٹ ٹیم کے اعزاز میں دئیے گئے عشائیہ میں شرکت کے دوران کیا۔اگرچہ آرمی چیف نے کرکٹ ٹیم کے نوجوان کھلاڑیوں سے خطاب کرتے ہوئے یہ کہا ہے لیکن اس کا اطلاق زندگی کے ہر شعبے میں جدوجہد کرنے والوں پر بھی ہوتا ہے اپنی غلطی تسلیم کرنا ہمت اور اعلیٰ ظرفی کا کام ہوتا ہے اور بیجا کی ضد پر اڑے رہنا کوئی دانشمندی نہیں اپنی غلطی تسلیم کرنے کے بعد ہی اس کو سدھارنے اور غلطی سے سیکھ کر درست راستہ اختیار کرنے کا مرحلہ آتا ہے ہمارے معاشرے میں غلطی تسلیم کرنے کی اعلیٰ ظرفی یا پھر ضد اور انا سے گریز کا بدقسمتی سے رویہ ہی نہیں جس کے باعث ہمارے جملہ معاملات میں غیر حقیقت پسندی چھائی ہوتی ہے غلط سمت اور راستے پر گامزن ہونے کا رویہ نظر ثانی کا متقاضی امر ہے جسے اختیار کرکے زندگی کے عام و خاص معاملات میں کامیابی حاصل ہو سکتی ہے ۔
پاک افغان معاملات
ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے افغان حدود سے پاکستانی سکیورٹی اہلکاروں پر حملوں میں اضافے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاک افغان سرحد کے مسائل پر بات چیت جاری ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے میڈیا بریفنگ کے دوران تسلیم کیا کہ پاک افغان سرحد پر کئی مسائل ہیں۔دونوں ممالک کی جانب سے بارڈر فلیگ اجلاس روزانہ کی بنیاد پر منعقد کیے جارہے ہیں اور کھارلاچی سرحد کراسنگ پوانٹ سمیت کئی اہم امور پر بات چیت بھی جاری ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ان اجلاس کا مقصد سرحد سے ٹریفک، اور تجارتی سامان کی ترسیل کے لیے راستہ کلئیر کرنا تھا۔پاک افغان چمن سرحد پر دوستی گیٹ 13 نومبر کو بند کی گئی تھی جب افغان کی حدود سے مسلح شخص کی پاکستانی حدود پر فائرنگ کے نتیجے میں ایک اہلکار شہید ہوگیا تھا۔بعد ازاں افغانستان کی جانب سے 13 نومبر کے واقعے پر افسوس کا اظہار کیا گیا تھا اورکہا اس واقعے کی تحقیقات کے لیے وزارت خارجہ اور سرحدی اور قبائلی امور کی وزارتوں، مقامی چیمبرز آف کامرس اور قبائلی عمائدین پر مشتمل ایک اعلی سطحی کمیٹی تشکیل دی گئی جو اس ضمن میں کام کر رہی ہے انہوں نے کہا کہ افغانستان میں پاکستان کے سفارتخانے اور اسلام آباد میں افغانستان کے سفارتخانے کے ذریعے افغان فریقین کے ساتھ بات چیت جاری رکھیں گے۔پاکستان کی جانب سے سرحدی کشیدگی کے واقعات کے تسلسل اور بعض ایسے معاملات جس کے تانے بانے سرحد پار سے ملنے کا سلسلہ طالبان دور حکومت میں بھی بند نہ ہوا پاکستان کی جانب سے اچھی ہمسائیگی اور افغانستان سے اچھے تعلقات استوار رکھنے کے لئے درگز کی پالیسی اختیار کرنے کا ثبوت ہے جس کے جواب میں طالبان حکومت کو بھی اپنی ذمہ داریوں پر توجہ دینے اور ان معاملات میں سنجیدگی اختیار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ غلط فہمیاں پھیلانے والے عناصر کا راستہ روکا جا سکے اور دونوں ممالک کے تعلقات پر اثر نہ پڑے۔
یہ ہو تواچھا
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے صحت کی جانب سے دوا کے نسخے پر ڈاکٹرز کا لائسنس نمبر لازمی درج کرنے کی سفارش پر عملدرآمد سے شعبہ صحت میں کچھ بہتری آسکتی ہے۔دیکھا جائے تو شعبہ صحت ایک انڈسٹری کے طور پر چل رہا ہے جہاں پیسے کیلئے بھی کام ہوتا ہے، فارماسوٹیکل کمپنیز ڈاکٹرز کو سپورٹ بھی کرتی ہیں، جب یہ سب چیزیں ڈاکیومنٹ ہو جائیں تب یہ معاملات کچھ بہتر ہو سکتے ہیں۔قبل ازیں ڈاکٹری نسخوں میں دوا کے کمپنی کے نام کی بجائے جنرک نام لکھنے کے حوالے سے بھی سفارشات پیش کی گئی تھیں اس ضمن میں ہنوز قانون سازی نہیں ہو سکی حالانکہ دنیا بھر میں جنرک نام کا نسخہ تجویز کرنے کا عمل ہوتا ہے ایسا صرف ہمارے ہی ملک میں ہوتا ہے کہ ڈاکٹروں کی ملی بھگت سے مارکیٹ میں کسی دوا کی سیل غیرمعمولی طور پر بڑھا دی جاتی ہے اور اس ملی بھگت کا دونوں فائدہ اٹھاتے ہیں جبکہ عوام اورمریضوں کے لئے یہ غیر ضروری دوائی لکھنے اور استعمال سے صحت کانقصان اور جیب پر بوجھ کا دوہرا مسئلہ بن جاتا ہے۔دوا کے نسخے پر ڈاکٹر کا لائسنس نمبر لکھنے سے بغیر نسخے کے ادویات کی فروخت کی روک تھام میں مدد گار ثابت ہو گا جس کی معروضی حالات میںاشد ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں:  ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی حکمرانی