اسمبلیاں تحلیل کرنا کتنا آسان!

تحریک انصاف نے راولپنڈی میں بڑا جلسہ کیا، اس جلسے کی خصوصیت یہ تھی کہ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے بھی اس میں شرکت کی، عمران خان کو ڈاکٹرز نے ایک روز قبل ہی سفر کی اجازت دی تھی، یوں وزیرآباد میں فائرنگ کے بعد کچھ دنوں کے وقفے کے وہ باقاعدہ طور پر جلسے میں شریک ہوئے، کارکنان کی بڑی تعداد خان صاحب کو دیکھنے کیلئے موجود تھی لیکن اسے غیر معمولی مجمع قطعی طور پر نہیں کہا جا سکتا ہے۔ راولپنڈی جلسے پر سب کی نگاہ تھی کہ عمران خان کیا اعلان کرتے ہیں، توقع کی جا رہی تھی کہ وہ اسلام آباد کی طرف مارچ کا اعلان کر سکتے ہیں مگر انہوں نے طویل تقریر کے بعد کہا کہ تمام اسمبلیوں سے باہر نکلنے کا فیصلہ کیا ہے وہ اس سسٹم کا مزید حصہ نہیں رہیں گے۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ اسلام آباد جانے کا فیصلہ کرنا آسان ہے مگر اس سے سری لنکا جیسے حالات پیدا ہو جاتے، پوری کوشش رہی ہے کہ ملک میں کسی قسم کا انتشار نہ پیدا کروں۔ عمران خان نے مگر دوسرا راستہ اپنایا اور اسمبلیوں سے باہر رہنے کا اعلان کیا ہے، اس فیصلہ پر عمل کس قدر آسان ہے یہ بہت اہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزرائے اعلیٰ اور پارلیمانی کمیٹی سے وہ مشورہ کر رہے ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ابھی اسمبلیاں خالی کرنے کا فیصلہ نہیں ہو پایا ہے، یہ فیصلہ کب ہوتا ہے اس بارے بھی حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اتحادی جماعتیں اگر تحریک عدم اعتماد پیش کر دیتی ہیں تو اسمبلیاں تحلیل کرنے کے اعلان پر عمل ہونا مشکل ہو جائے گا اور دیگر کئی قانونی رکاوٹیں بھی موجود ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اس وقت تین صوبوں میں تحریک انصاف کی حکومت ہے، خیبرپختونخوا، پنجاب اور بلوچستان۔ کیا تینوں صوبوں کی قیادت اسمبلیاں خالی کرنے پر راضی ہو جائے گی، جس طرح پنجاب اسمبلی میں آئینی بحران پیدا ہو گیا تھا کیا اب دوبارہ تینوں صوبوں میں ویسی صورتحال پیدا تو نہیں ہونے جا رہی ہے کیونکہ بہت سے اراکین ایسے بھی ہوں گے جو فی الوقت اسمبلیاں خالی کرنے کے حق میں نہ ہوں۔ خان صاحب کو یہ بات بھی باور کرائی گئی ہے کہ ان کے پاس دفاعی لائن صوبائی حکومتیں ہیں اگر انہیں ختم کر دیا گیا اور منصوبے کے مطابق الیکشن نہ ہوئے تو باقی ماندہ عرصہ تحریک انصاف کو دشواری میں گزارنا پڑے گا۔ تحریک انصاف کے اندر ایسے اراکین موجود ہیں جو آئندہ الیکشن سے پہلے سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنا چاہتے ہیں لیکن مناسب وقت کے انتظار میں ہیں اگر تحریک انصاف اسمبلیاں ختم کر دیتی ہے تو ان اراکین کے پاس بہترین موقع ہو گا کہ وہ تحریک انصاف کو خیر باد کہہ دیں، عملی طور پر ایسا ہوتا ہے تو الیکشن سے پہلے ہی الیکٹ ایبل کی بڑی تعداد تحریک انصاف سے جدا ہو جائے گی۔ ا
سی طرح اگر تحریک انصاف اسمبلیاں خالی کرنے کا فیصلہ کرنے میں ایک ماہ گزار دیتی ہے اور یہ سوچ کر فیصلہ کرتی ہے کہ الیکشن کمیشن کے پاس نئے الیکشن کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ نہیں بچے گا تو ملحوظ خاطر رہنا چاہیے کہ اسمبلی کی آئینی مدت سے چھ ماہ پہلے ضمنی الیکشن بھی نہیں کرائے جا سکتے ہیں تو تحریک انصاف کو اسمبلیاں خالی کر کے الٹا نقصان اٹھانا پڑے گا، کیونکہ صوبائی حکومتوں کے ساتھ عام انتخابات میں جانا اور اپوزیشن کے طور پر الیکشن میں جانے میں بہت فرق ہے۔ صوبائی حکومتوں میں رہنے کا فائدہ ہو گا کہ اگلے چھ ماہ میں کچھ نہ کچھ ترقیاتی کام اور عوامی مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے جس سے عوام کی حمایت حاصل کی جا سکتی ہے، جبکہ حکومت چھوڑنے کے بعد یہ آپشن ختم ہو جائے گا۔ تحریک انصاف اگر یہ سمجھتی ہے کہ معاشی تباہی کا سارا ملبہ وفاقی حکومت پر ڈالا جا سکتا ہے تو عوام یہ بات ہرگز نہ سمجھیں گے، جب تحریک انصاف کے نمائندے اپنے اپنے حلقوں میں جائیں گے تو عوام استفسار کریں گے کہ انہوں نے عوام کیلئے کیا کیا ہے؟ خیبرپختونخوا میں گزشتہ نو برسوں سے تحریک انصاف کی حکومت ہے، اسی طرح پنجاب اور بلوچستان میں تحریک انصاف کی حکومت ہونے کی وجہ سے عوام کو مطمئن کرنا آسان نہ ہو گا، انہی وجوہات کی بنا پر ہماری سوچی سمجھی رائے ہے کہ تحریک انصاف اسمبلیاں خالی کرنے کا فیصلہ نہ کر پائے گی۔ عوام یہ سوال کرنے میں بھی حق بجانب ہیں کہ عمران خان کو اسمبلیاں خالی کرنے کا فیصلہ کرنے میں آٹھ ماہ کا عرصہ کیوں لگ گیا؟ ہم نے انہی سطور میں لکھا کہ لانگ مارچ تحریک انصاف کے مسقتبل کا فیصلہ کرے گا، راولپنڈی جلسے میں کارکنان کی کم تعداد نے مقبولیت کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے، کہا جا سکتا ہے کہ عمران خان نے تمام پتے ظاہر کرنے میں جلد بازی کا مظاہرہ کیا ہے، اسمبلیاں تحلیل کرنے کے معاملے میں بھی اگر اسی طرح عجلت کا مظاہرہ کیا گیا تو تحریک انصاف الیکشن سے پہلے بہت کچھ کھو دے گی۔

مزید پڑھیں:  ایران کا''آپریشن سچا وعدہ''