مشرقیات

کپتان کی سیاست ختم ہو گئی یا نئی شروعات کر بیٹھے ،اس بارے میں کہتی ہے خلق خدا غائبانہ کیا وہ آپ چاہیں تو سوشل میڈیا پر دیکھ سکتے ہیں تاہم صاحب الرائے افراد سے رجوع کریں جو سیاست کے پیچ وخم کو اچھی طرح سمجھتے ہوں تو ان کا خیال ہے کہ کپتان اپنا مارچ آرمی چیف کی تعیناتی کے بعد ختم کرکے سب کی تسلی کرا گئے ہیں کہ نئے انتخابات کا مطالبہ وہ لے کر ہی نہیں اٹھے ورنہ اس کے لیے صرف ایک ہی آسان نسخہ کافی تھا کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلیاں تحلیل کر دیتے حکومت نئے انتخابات کرانے پر مجبور ہو جاتی تاہم انہوں نے ایسا نہیں کیا بجائے اس کے وہ ایک تقرری اپنی یا کسی اور کی پسند کے مطابق کرنے کے لیے گزشتہ چھ ماہ سے جلسے جلوسوںاور لانگ وشارٹ مارچوں میں مصروف رہے۔سوال یہ ہے کہ نومبر کے آخر تک وہ کون تھا جو کپتان کی سیاست کواپنے حق میں استعمال کرتا رہا اورساتھ میں ہی انہیں بھی دوبارہ اقتدار کی امید دلاتا رہا ،حقیقت میں سوال وہ کون تھا کی بجائے”وہ کون تھے ؟”ہو ناچاہئے۔جب تک یہ چکر بازی بند نہیں ہوگی سیاست اور سیاستدان بدنام ہوتے رہیں گے اور انہیں ٹشوپیپر کی طرح استعمال کرکے پھینکا بھی جاتا رہے گا،دروغ برگردن راوی اب اعلیٰ تقرریوں کی بات ہو تو اس کے لیے ملکی سطح پر مقتدر حلقوں کو ہی اعتماد میں نہیں لینا پڑتا بلکہ بین الاقوامی شخصیات اور اداروںکو بھی کئی ایک یقین دہانیاں کرانی پڑتی ہیں آپ دیکھ ہی چکے کہ وطن عزیز میں آئی ایم ایف ،ورلڈ بینک کے نمائندے تک وزارت عظمیٰ اور خزانچی کے عہدوں پر فائز رہے ،یہاں تک کہ ہم گورنر اسٹیٹ بینک کی اسامی بھی عالمی مالیاتی اداروں کے لیے خالی کرنے کی تاریخ رکھتے ہیں۔وہی بات کہ بہت سے فیصلے ہم آزاد ہو کر کرہی نہیں سکتے خود ہمارے وزیراعظم فرما گئے ہیں کہ بھکاریوں کے پاس حق انتخاب نہیں ہوتا تو جناب جب ہم یہاں تک آہی گئے ہیں تو واپس پلٹنے کے خواب دکھانے والے بھی صرف ہمیں ماموں بنا رہے ہیں ان کے پاس بیچنے کو خواب تو ہیں لیکن حقائق سے وہ بھی منہ نہیں موڑ سکتے ،کسی نہ کسی طرح ووٹ سمیٹ کر ایک بار پھر ادھر ہی رخ کرکے صفیں باندھ لیتے ہیں جدھر سے قوم کو ورغلاتے رہتے ہیں،یہ سبق انہیں جو بھی پڑھاتا ہے وہ لیڈروں کا بھی لیڈر ہے اور اس لیڈر کی سننی بند کر دی جائے تب ہی سیاست دان اپنی رٹ منواسکیں گے۔یہ کوئی آسان کام نہیں ہے بظاہر سبھی کہہ رہے ہیں کہ ہر بندے کو اپنے کام سے کام رکھنا چا ہئے یہاں کے دستور میں بھی یہ بات واضح لکھی ہوئی ہے پھر یہ غیر دستوری کلچر اتنا کیوں پختہ ہو چکا ہے کہ کوئی بھی ضرب اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ،ضرب لگانے والے ڈرامہ بازی اب بند کریں،حقیقی آزادی ابھی بڑی دور کی با ت ہے ان کے ہوتے ہوئے تو ناممکن۔

مزید پڑھیں:  کیا بابے تعینات کرنے سے مسائل حل ہوجائیں گے