پاک ترکیہ تجارتی روابط

وزیر اعظم شہباز شریف ترکیہ کے دورہ سے وطن واپس پہنچ چکے ہیں، ان کے دورہ میں دو طرفہ تجارتی پیش رفت ہوئی ہے، ترکیہ سے تجارتی حجم پانچ ارب ڈالر تک بڑھانے کا معاہدہ ہوا ہے، ترکیہ دورہ کے موقع پر وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان، امریکہ، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات سمیت تمام ممالک کے ساتھ کام کرنے کا خواہاں ہے، وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان کو گیس کی قلت، بجلی کے مسائل کا سامنا ہے، پاکستان کی خواہش ہے کہ توانائی، زراعت اور دیگر شعبوں میں ترکیہ کے تجربہ سے فائدہ اٹھائے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ گزشتہ دور حکومت میں جب پنجاب میں شہباز شریف وزیر اعلیٰ تھے تو انہوں نے ترکیہ کے اشتراک سے متعدد ترقیاتی منصوبے شروع کیے تھے، توانائی بحران پر قابو پانا ان میں سے ایک تھا، اسی طرح ویسٹ مینجمنٹ کمپنی بھی ترکیہ کے اشتراک سے شروع کی گئی اور ٹرانسپورٹ شعبے میں ترکی کا تعاون حاصل کیا گیا تھا، حکومت کے تبدیل ہونے کے ساتھ ان منصوبوںکو پس پشت ڈال دیا گیا تھا، جس سے دوست ممالک نے ناراضی کا اظہار بھی کیا، اب جبکہ وفاق میں شہباز شریف وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہیں تو انہوں نے دوبارہ ترقی کے سلسلے کو جوڑنے کی کوشش کی ہے، امید کی جانی چاہئے کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی کوشش مفید ثابت ہو گی، تاہم حکومت کے پاس وقت کم ہے اور چیلنجز زیادہ ہیں، جبکہ بیرونی سرمایہ کاری کے لئے سیاسی استحکام اور امن و امان کا برقرار رہنا بہت ضروری ہے، پاکستان میں سرمایہ کاری کے لئے بیرون ممالک کی کمپنیاں اس لئے تیار نہیں ہوتی ہیں کہ یہاں حالات تبدیل ہوتے وقت نہیں لگتا، اہل سیاست کو اس طرف توجہ دینی ہوگی، ورنہ جب تک ملک میں سیاسی استحکام قائم نہیں ہوتا وزیر اعظم شہباز شریف کی طرف سے بیرونی سرمایہ کاری کے لئے کی جانے والی کوششیں رائیگاں جائیں گی۔
دوبارہ تعیناتی پر پابندی کا جائز مطالبہ
پشاور میں خیبرپختونخوا بار کونسل کے زیر اہتمام آل پاکستان وکلاء نمائندوں کے اجلاس ہوا، جس میں شریک ملک بھر کے وکلاء نمائندوں نے ایک قرارداد کے ذریعے حکومت سے ریٹائرمنٹ کے بعد ملازمین کی دوبارہ تعیناتی پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا، دیکھا جائے تو وکلاء کا یہ مطالبہ ہر لحاظ سے جائز، درست اور معقول ہے جس پر فوری عملدرآمد ہونا چاہیے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ پاکستان میں خاص طور پر اعلیٰ عہدوں سے سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی دوبارہ تعیناتی ایک کلچر بن چکا ہے، مختلف حکومتوں کی طرف سے لوگوں کو نوازنے کے لیے بھی یہ طریقہ اپنایا جاتا ہے، ماضی میں ہو سکتا ہے کہ شرح خواندگی کم ہونے اور مطلوبہ اہلیت کے افراد کے فقدان کے باعث یہ اقدام ملک کے لیے فائدہ مند ثابت ہوتا رہا ہو لیکن اب ریٹائرڈ لوگوں کی دوبارہ تعیناتیوں کا کوئی جواز نہیں رہا، یہ اقدام بہت سے دوسرے اہل لوگوں کی حق تلفی کا باعث بن رہا ہے، ایک طرف یہ ریٹائرڈ لوگ بھاری پنشن وصول کر رہے ہوتے ہیں اور اس کے ساتھ ان کو تنخواہ بھی مل رہی ہوتی ہے تو دوسری طرف بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو ڈگریاں اٹھائے روزگارکی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہوتے ہیں، پھر دیکھا جائے تو دنیا کے دیگر ملکوں میں ریٹائرمنٹ کے لیے عمرکی حد کم کر 50 یا55 سال تک لائی جا رہی ہے لیکن ہمارے یہاں یہ حد60 سال سے بڑھانے پر غور ہوتا ہے۔
اگر ریٹائرڈ ملازمین کی دوبارہ تعیناتیاں عمل میں لائی جاتی رہیں اور پھر ریٹائرمنٹ کے لیے عمر کی حد بھی بڑھا دی گئی تو نئے لوگوں کے لیے مواقع کیسے پیدا ہوں گے؟ وہ ڈگریاں لے کر کہاں جائیں گے؟ بلاشبہ اپنے شہریوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے، اگر ریاست ایک فرد کو ہی بارہا موقع فراہم کرے گی اور دوسرے اہل شہریوںکو نظر انداز کرے گی تو کیا یہ ناانصافی نہیں ہو گی؟ ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ تعیناتی پر پابندی کا ہرگز یہ مطلب بھی نہیں کہ ریٹائرڈ لوگوں کے کمانے پر قدغن لگا دی جائے، یقیناً ریٹائرڈ ملازمین بھی ملک کے شہری ہیں اور انہیں برابر کے حقوق حاصل ہیں، وہ نجی شعبوں میں اپنی خدمات انجام دے سکتے ہیں، انہیں کاروبار کرنے کا حق حاصل ہے ، اسی طرح وہ سماجی سرگرمیوں میں حصہ لے کر بھی ملک کی خدمت کر سکتے ہیں۔
تاجروں کو بجلی کی بلاتعطل فراہمی ضروری
تاجر فیڈریشن چارسدہ نے بجلی کی ناروا لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا اور اس ضمن میں احتجاجی تحریک شروع کرنے کا اعلان بھی کیا۔ اب جب کہ سردیوں کا آغاز ہو چکا ہے تو بجلی کی کھپت بھی کم ہو گئی ہے، اس صورت میں لوڈ شیڈنگ کا کوئی جواز نظر نہیں آتا، تاجر برادری، جو پہلے ہی بھاری یوٹیلیٹی بلوں سے پریشان ہے خاص طور پر چھوٹے تاجروں پر بھاری بلز قیامت بن کر گر رہے ہیں، انہیں کاروبارکے اوقات میں بجلی کی عدم فراہمی ان کے معاشی قتل کے مترادف ہے، مہنگائی سے لوگوںکی قوت خرید کم ہونے سے بھی کاروبار متاثر ہیں، اب اگر کاروباری طبقے کو بجلی سے بھی محروم کیا جا رہا ہے تو اس سے ان کے لیے مزید مشکلات پیدا ہوں گی، روزانہ کے اخراجات پورے کرنے اور خاندان کی کفالت کرنا مشکل ہو جائے گا، پھر جب تاجر احتجاج کا راستہ اختیار کریں گے تو اس سے امن و امان کا مسئلہ پیدا ہو گا، احتجاجی مظاہروں، دھرنوں، راستوں کی بندش سے معاشرے کے دیگر طبقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی متاثر ہوتے ہیں، لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ کاروباری طبقے کو بجلی کی بلاتعطل فراہمی یقینی بنائی جائے تاکہ ان کے کاروبار متاثر نہ ہوں۔

مزید پڑھیں:  بجلی چوری۔۔۔ وفاق اور خیبر پختونخوا میں قضیہ ؟