سیاسی عدم استحکام کا لامتناہی سلسلہ

28 اکتوبر کو لاہور لبرٹی چوک سے شروع ہونے والا تحریک انصاف کا لانگ مارچ ایک ماہ بعد 26نومبر کو راولپنڈی مری روڈ میں آخری جلسہ کے بعد ختم ہو گیا ہے، چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے اس جلسے میں اسمبلیوں سے باہر نکلنے کا اعلان کیا ہے، انہوں نے کہا کہ اس نظام کا حصہ نہیں رہ سکتے۔ عمران خان کی تقریر تین حصوں پر مشتمل تھی، انہوں نے تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے وقت مہنگائی اور معیشت کے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے سات ماہ کے اندر معیشت کو جو نقصان ہوا ہے وہ عوام کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں، عمران خان کے بقول سات ماہ قبل پاکستان کی معیشت17سال بعد تیزی کے ساتھ ترقی کر رہی تھی، عمران خان نے کہا کہ ان کے دور میں ریکارڈ32ارب ڈالر کی ایکسپورٹ تھی، اس وقت ڈالر178جبکہ آج240روپے پر ہے۔ عمران خان نے کہا کہ2018میں اقتدار سنبھالتے وقت20ارب ڈالر کا تاریخی خسارہ تھا، عمران خان نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کے10سالہ دور حکومت میں ملک کے قرضوں میں4گنا اضافہ ہوا۔
عمران خان کی تقریر کا دوسرا حصہ اسٹیبلشمنٹ پر تنقید سے متعلق تھا۔ انہوں نے ایک بار پھر سائفر کی کہانی کو دوہرایا اور کہا کہ اگر سائفر محض مفروضہ ہے تو نیشنل سکیورٹی کونسل میں اس کا اعتراف کیوں کیا گیا؟ عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے چار برسوں میں حکومت تو ان کی تھی مگر کنٹرول کسی اور کے پاس تھا، عمران خان نے وزیر آباد فائرنگ واقعے کو قدرے تفصیل سے بیان کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ ایک منصوبے کے تحت انہیں راستے سے ہٹانے کی کوشش کی گئی، لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں بچا لیا۔ عمران خان کی تقریر کا تیسرا حصہ تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے سے متعلق تھا، انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا وجہ تھی کہ ہماری حکومت کو گرایا گیا؟ عمران خان کے بقول تحریک انصاف کی حکومت کو ایک سازش کے تحت ہٹایا گیا، چیئرمین تحریک انصاف نے تقریر کے آخری حصے میں اسمبلیوں سے باہر نکلنے کا اعلان کیا، غور طلب بات یہ ہے کہ اسمبلیوں سے باہر نکلنا عملی طور پر کتنا آسان ہے؟ صوبائی اسمبلیوں سے باہر نکلنا تحریک انصاف کے لئے آسان نہیں ہو گا، یہی وجہ ہے کہ چیئرمین تحریک انصاف نے راولپنڈی جلسہ میں اسمبلیاں تحلیل کرنے کا فیصلہ کرنے کی بجائے محض اعلان پر اکتفا کرتے ہوئے کہا کہ وہ وزرائے اعلیٰ اور پارلیمانی قیادت سے مشاورت کے بعد حتمی فیصلہ کریں گے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسمبلیاں توڑنے میں کئی قانونی رکاوٹیں حائل ہیں، پختونخوا اور پنجاب اسمبلی کے اجلاس جاری ہیں، قانون کے مطابق دوران اجلاس اسمبلی کو تحلیل نہیں کیا جا سکتا، اس کے باجود اگر تحریک انصاف اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کی کوشش کرتی ہے تو آئینی بحران پیدا ہونے کی وجہ سے معاملہ عدالتوں میں بھی جا سکتا ہے، پنجاب کی صورتحال یہ ہے کہ اسمبلی تحلیل ہونے کے فوری بعد حکومت قائم ہونے کے قوی امکانات ہیں کیونکہ اپوزیشن کی گنتی پوری ہے، پختونخوا میں گورنر راج لگ سکتا ہے، شنید ہے تحریک انصاف صوبوں کی اسمبلیاں تحلیل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور سینیٹ سے استعفے نہیں دے گی، کیونکہ صوبائی اسمبلیوں کی مدت کا دورانیہ بہت کم رہ گیا ہے جبکہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں چند برس باقی ہیں، ان وجوہات کی بناء پر کہا جا سکتا ہے کہ تحریک انصاف اسمبلیاں خالی کرنے کا فیصلہ نہ کر پائے گی، تمام تر خدشات کے باوجود اگر تحریک انصاف صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کر دیتی ہے تو حکومت قائم رہنے کا اخلاقی جواز کھو دے گی بلکہ سیاسی عدم استحکام پیدا ہو جائے گا، جو موجودہ حالات کسی بھی اعتبار سے ملکی مفاد میں نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ قومی و صوبائی اسمبلیاں اگست2023میں اپنی آئینی مدت پوری کر رہی ہیں، جس میں محض9ماہ کا وقت باقی ہے، اس دوران جون میں بجٹ بھی پیش کیا جانا ہے، اگر فوری طور پر عام انتخابات کا اعلان کیا جاتا ہے تو بجٹ پیش کرنا مشکل ہو جائے گا، کیونکہ نگران حکومت کے لئے بجٹ پیش کرنا آسان نہ ہو گا سو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ تحریک انصاف باقی ماندہ مدت کو غنیمت جانتے ہوئے عوام کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط بنائے، باقی جماعتیں بھی یقینی طور پر اگلے الیکشن کی تیاری ہی کر رہی ہیں، اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ ملک میں سیاسی استحکام کی فضا قائم ہو گی جو معاشی استحکام کا باعث بنے گی اور عام انتخابات کا انعقاد پر امن ماحول میں ہوگا، لیکن اگر تحریک انصاف اسمبلیاں تحلیل کرنے پر مُصر رہی تو حکومت میں شامل سیاسی جماعتیں بھی اقتدار کو بچانے کے لئے کوششں کریں گی۔ شنید ہے اتحادی جماعتیں اسمبلیاں تحلیل کرنے سے پہلے تحریک عدم اعتماد لانے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد پھر اسمبلیوں کو تحلیل کرنا مشکل ہو جائے گا، ایک سیاسی جنگ شروع ہو جائے گی جس سے گریز کی ضرورت ہے، جب عام انتخابات دستک دے رہے ہیں تو نیا سیاسی محاذ کھولنا کسی کے بھی فائدے میں نہیں ہو گا، امید کی جانی چاہئے کہ سیاسی جماعتیں ملک کے وسیع تر مفاد کو سامنے رکھ کر فیصلہ کریں گی۔

مزید پڑھیں:  دانش کا فرار