اسمبلیوں کا مستقبل

تحریک انصاف کے سربراہ سابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے ”حقیقی آزادی” ریلی سے اختتامی خطاب کے دوران صوبائی اسمبلیوں سے باہر آ جانے کے اعلان کے بعد ملک میں ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا ہے ‘ اس سلسلے میں خیبر پختونخوا اورپنجاب اسمبلیوں کی تحلیل کے حوالے سے دونوں صوبائی حکومتوں کے اکابرین کے بیانات کو عمران خان کے اعلان کی توثیق سے تشبیہ دی جا سکتی ہے’ تاہم عمران خان نے اس ضمن میں کوئی واضح اور دو ٹوک اعلان کرنے سے گریز کیا بلکہ اس حوالے سے حتمی فیصلہ کرنے کے لئے ایک ہفتے کی مہلت کی بات کی ہے، اس دوران پارٹی رہنماؤں سے مشاورت کے بعد ہی آخری اعلان متوقع ہے جب کہ دوسری جانب حکومت اسمبلیوں کو بچانے کے لئے سرگرم ہو چکی ہے اور بعض اخباری ا طلاعات کے مطابق حکومتی ارکان نے پی ٹی آئی کے مبینہ ناراض ارکان سے رابطوں کا آغاز کر دیا ہے جوشنید ہے کہ اسمبلی رکنیت بچانے کی فکر کر رہے ہیں ‘ اس سلسلے میں خیبر پختونخوا اسمبلی میں اپوزیشن اتحاد نے قائد حزب اختلاف اکرم خان درانی کی صدارت میں ہنگامی اجلاس طلب کرکے صورتحال پرغور کیا اور نہ صرف تحریک عدم اعتماد لانے بلکہ اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کرنے پر بھی غور کیا’ ادھر حکومتی زعماء نے عمران خان کی ہدایت پر اسمبلی تحلیل کرنے کا دو ٹوک اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان کے حکم کا انتظار ہے’ صوبائی وزیر شوکت یوسفزئی نے کہا ہے کہ ایک منٹ کی تاخیر کئے بغیر اسمبلیوں سے نکل آئیں گے’ ایک اور خبر کے مطابق رکاوٹوں کے بغیر حکومت اور تحریک انصاف کے مابین بیک ڈور مذاکرات چل رہے ہیں جب کہ ایک دوسری خبر یہ بھی ہے کہ (ن) لیگ نے وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے لئے لاہور میں اجلاس طلب کر لیا ہے ‘ اب دیکھنا یہ ہے کہ بالآخر اس ساری صورتحال کا اختتام کس نکتے پر ہوگا اور یہ کشمکش کہاں جا کر تھمے گی؟ کیونکہ تحریک انصاف نے ملک میں نئے انتخابات کرانے کے لئے جو تگ ودو اقتدار سے محرومی کے بعد شروع کی تھی وہ مبینہ طور پر مقتدر حلقوں کے ”غیرجانبدار” ہونے اور تحریک انصاف کی (ماضی میں مبینہ) سرپرستی سے مزید ہاتھ کھینچ لینے کے بعد بری طرح سے ناکام ہو گئی ہے اور جس آزادی مارچ کے ساتھ تحریک انصاف کی امیدیں بندھی تھیں وہ امیدیں دم توڑ چکی ہیں’ اس لئے اب تحریک انصاف آخری حربے کے طور پر اسمبلیوں سے باہر آنے کی حکمت عملی کے اعلان کے بعد آئندہ چند روز میں اس معاملے کو پارٹی کے اندر طے کرنے کے لئے غور و خوض کرنے جا رہی ہے ‘ جبکہ دوسری جانب حکومتی اتحاد بھی اسمبلیوں کو بچانے کے لئے سرگرم ہو چکا ہے ‘ ماہرین آئین وقانون کے مطابق یہ اتنا سادہ معاملہ بھی نہیں ہے اور ابھی تحریک انصاف کو اسے منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے ہفت خوان طے کرنے پڑیں گے’ ایک تو کنٹینر پر خطاب کے دوران عمران خان نے اسمبلیاں تحلیل کرنے کی بجائے اسمبلیوں سے باہر آنے کے الفاظ ا ستعمال کرکے اپنی دھمکی کی شدت خود کم کردی ہے ‘ دوسرا یہ کہ ا علان کے اگلے ہی روز آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان اسمبلیوں کو برقرار رکھنے کے اعلان سے خود ہی اس غبارے سے ہوا نکال دی ہے ‘ تیسرا یہ کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے اجلاس اب بھی جاری ہیں ‘ اور اسمبلی تحلیل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ یہ اجلاس ختم کئے جائیں ‘ تاہم یہ خدشات بھی موجود ہیں کہ جیسے ہی ان دونوں اسمبلیوں کے اجلاس اختتام پذیر ہوں گے’ ممکنہ طور پر دونوں اسمبلیوں میں متعلقہ وزرائے اعلیٰ کے خلاف تحاریک عدم اعتماد جمع کرادی جائیں گی جس کے بعد عملی طور پر اسمبلیوں کو تحلیل کرنا ممکن نہیں رہے گا’ یاد رہے کہ خیبر پختونخوا میں پرویز خٹک حکومت کے دوران بھی جب عمران خان نے ڈی چوک پر نواز شریف حکومت کے خلاف دھرنا دیا تھا ‘ ایسی ہی صورتحال سامنے آئی تھی اور عمران خان خیبر پختونخوا اسمبلی توڑنے کا پروگرام بنا چکے تھے تو اندرون خانہ پرویز خٹک اور تب کی اپوزیشن کے مابین مبینہ طور پر سمجھوتے کے تحت پرویز خٹک کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے اور اسمبلی بچانے پر اتفاق ہوا تھا ‘ اب دیکھنا یہ ہے کہ کہیں ایک بار پھر تو وہی تاریخ تو نہیں دوہرائی جائے گی؟ اورسب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ اس وقت تحریک انصاف کے سربراہ جس طرح پنجاب اور خیبر پختونخوا کے ریسورسز کا بے دریغ استعمال کرتے ہوئے ہر قسم کی مراعات سے بھر پور استفادہ کر رہے ہیں’ اسمبلیاں تحلیل کرنے یا اسمبلیوں سے باہر آجانے کے بعد یہ سہولیات باقی کہاں رہیں گی’ بلکہ الٹا وہ تمام کیسز سامنے آجائیں گے جن میں عمران خان کے بری طرح پھنسنے کے حوالے سے خبریں چل رہی ہیں ‘ اور ممکنہ طور پر ان کی گرفتاری بھی عمل میں آسکتی ہے ‘ کیونکہ تجزیہ نگاروں کے مطابق اب وہ ان حلقوں کی آشیرباد بھی کھو چکے ہیں جن کی سرپرستی انہیں ماضی قریب تک حاصل رہی ہے’ اس لئے دیکھنا یہ ہے کہ تحریک انصاف اپنے آنے والے اجلاسوں میں اسمبلیوں کی تحلیل یا اسمبلیوں سے باہر آنے کے حوالے سے کیا فیصلہ کرتی ہے ‘ یعنی نفع نقصان کی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے ہی پارٹی قیادت کوسوچ سمجھ کر اور پھونک پھونک کرقدم اٹھانا پڑے گا’ جذبات کی رو میں بہنے سے نقصان کا اندیشہ زیادہ ہے ۔

مزید پڑھیں:  برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر؟