نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے

جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے چیئرمین اور پاک فوج کے سربراہ کی تعیناتی کے بعد ملک میں کئی ہفتوں سے جاری ہیجانی کیفیت تو خدا خدا کرکے ختم ہوگئی لیکن اس کے فوراً بعد تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی طرف سے صوبائی اسمبلیوں سے استعفوں کے سوال پر بڑھتی سیاسی کشیدگی سے عوام کی اضطرابی حالت میں مزید اضافہ ہونے لگا ہے۔ ملک میں جاری عدم استحکام، معاشی بد حالی اور ٹکراؤ کی صورتحال پر ہر سو تبصرے ہو رہے ہیں کہ آئندہ چند ماہ میں ملک میں سیاسی میدان میں کیا ہونے والا ہے۔ عام آدمی سوال کر رہا ہے کہ ایسے اقدامات سے ملک و قوم کی کونسی خدمت کی جا رہی ہے۔ کئی ہفتوں سے جس لانگ مارچ کی تیاری کی جا رہی تھی، وہ لانگ مارچ اس بنیاد پر ختم کردیاگیا کہ مذکورہ جماعت کی سیاسی قیادت موجودہ سیاسی و معاشی صورتحال کے تناظر میں ملک میں کسی قسم کا تصادم اور ٹکراؤ نہیں چاہتی۔ اگر سیاسی قیادت کو مطلوب یہی تھا تو پھر انہیں اتنے بڑے سیاسی مشق کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ یہ اعلان تو وہ ایک سیاسی بیان یا ٹویٹ کے ذریعے بھی دے سکتے تھے۔ اسی لانگ مارچ کو روکنے کے لئے حکومت نے کنٹینرز منگوانے، سکیورٹی فورسز کے قیام و طعام اور شیلز کی خریداری کے لئے تقریباً چالیس کروڑ روپے مختص کئے تھے۔ کیا یہ قوم اور یہ ملک ان شاہ خرچیوں کا متحمل ہوسکتا ہے؟ حیرت کی بات ہے کہ عمران خان نے اسمبلیوں سے استعفوں کا فیصلہ پہلے کیا اور مشاورت کا عمل بعد میں شروع کیا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ عمران خان پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیوں سے استعفوں کے باقاعدہ دستخط شدہ نوٹس اسی جلسہ گاہ میں عوام کے سامنے لہراتے لیکن انہوں نے کہا کہ وہ اس فیصلے کے بعد صوبائی وزرائے اعلیٰ سے مشاورت کا عمل شروع کریں گے۔ کیا عمران خان کو یقین ہے کہ وہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان کے ساتھ پنجاب کے وزیر اعلیٰ پرویز الہٰی کو بھی منانے میں کامیاب ہوجائیں گے جو اس دن جلسہ گاہ میں بھی نہیں پہنچے جس دن عمران خان یہ اعلان کرنے والے تھے۔ عمران خان کے مطابق وہ اسمبلیوں سے استعفے دے کر اس کرپٹ نطام سے نکلنا چاہتے ہیں۔ ان کی بات بالکل بجا ہے کہ یہ گلا سڑا نطام یکسر ناکارہ ہوچکا ہے اور ایک نئے نظام کی از سر نو تشکیل کے لئے اسی گلے سڑے نطام کی بیخ کنی کرنی ہوگی۔ لیکن نئے پاکستان کی بنیاد رکھنے کے لئے کیا عمران خان اس پرانے نظام کی ان بنیادوں کو بھی اکھاڑ پھینکنے کے لئے تیا ر ہوںگے جس پر انہوں نے گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر میں اپنی عمارتیں تعمیر کی ہیں۔ کیا عمران خان اس نظام کے سرپرست اعلیٰ صدر محترم ڈاکٹر عارف علوی کو گھر بھیجنے کے لئے بھی کہیں گے جن کی سر پرستی میں عمران خان کے مطابق یہ گلا سڑا نظام پورے ملک کے ماحول کو بد بودار کر رہا ہے؟ دوسری طرف اس سے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ تقریباً سات ماہ پہلے موجودہ نظام کو کرپٹ اور ناکارہ نظام کہنے والے وطن عزیز کی تقریباً ایک درجن سیاسی پارٹیاں پی ڈی ایم کی شکل میں اب اسی نظام کو بچانے کے لئے اکھٹی ہوئی ہیں۔ پنجاب میں آصف علی زرداری کی آمد سے سیاسی ماحول ایک بار پھر گرم ہوا ہے۔ موصوف وہاں پر پنجاب کی حکومت کا دھڑن تختہ کرنے کے لئے سیاسی جوڑ توڑ میں مصروف ہیں۔ اسکے لئے کبھی وزیر اعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کی باتیں ہو رہی ہیں تو کہیں گورنر راج لگانے کی۔ خیبر پختونخوا میں حزب اختلاف کی جماعتیں سر جوڑ کر بیٹھ گئی ہیں کہ کسی طرح اس نظام کو بچایا جائے جس سے ان کے مفادات وابستہ ہیں۔ ایک طرف اگر حکومت نے کسی بھی صورت اقتدار سے چمٹے رہنے کی ٹھان لی ہے تو دوسری طرف اپوزیشن بھی حکومت کو گھر بھیجنے سے کم سودے پر تیار نہیں ہے۔ اس سیاسی بھیڑ میں عام آدمی رل رہا ہے۔ وہ چیخ چیخ کر پکار رہا ہے کہ خدارا اس ملک کے پسے ہوئے طبقے کی خاطر اس ملک پر رحم کھاؤ اور اپنی جھوٹی انا کی خاطر اس ملک کے کو تباہ ہونے سے بچاؤ کیونکہ اس ملک کی بقاء میں حاکم اور محکوم دونوں کی بقاء ہے لیکن نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے۔ حکومت کے اپنے لوگ چیخ چیخ کر کہتے ہیں کہ ملک تباہی کی طرف جا رہا ہے۔ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے اپنے ایک حالیہ آرٹیکل میں ملکی معاشی صورتحال کی جو تصویر کشی کی ہے اس سے ایوان اقتدار پر براجمان ٹولے کی آنکھیں کھلنی چاہئیں۔ ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر صرف آٹھ ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔ کوئی دوست ملک قرض دینے کے لئے تیار نہیں۔ کوویڈ کے بعد عالمی کساد بازاری کی وجہ سے دنیا جس اقتصادی بحران سے گزری ہے پاکستان اس سے پوری طرح متاثر ہوا ہے۔ رہی سہی کسر حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں نے پوری کردی۔ اقتصادی ماہرین آئندہ تین ماہ کے دوران جس خطرناک صورتحال کی نشاندہی کر رہے ہیں اس میں ہم یہی دعا کرسکتے ہیں کہ اللہ تعالی ہماری سیاسی قیادت کو ہدایت دے کہ وہ اس ملک پر رحم کھائیں۔

مزید پڑھیں:  عسکریت پسندوں سے مذاکرات؟