1 119

18ویں ترمیم میں نظرثانی کے پس پردہ مقاصد

پیپلز پارٹی کے دورحکومت میں2010ء میں اٹھارہویں ترمیم دوتہائی اکثریت سے پاس کی گئی تھی، اٹھارہویں ترمیم کی منظوری سے 1973 کے آئین میں کئی تبدیلیاں کی گئیں۔ جن میں صدر سے اسمبلیاں توڑنے کا اختیار واپس لینا، صوبہ سرحد کو خیبر پختونخوا کا نام دینا، سابق صدر جنرل ضیاء الحق کا نام آئین سے نکالنا، تیسری مرتبہ وزیراعظم یا وزیراعلیٰ بننے کی پابندی ختم کرنا، ایک درجن سے زیادہ وفاقی وزارتوں کے اختیارات صوبوں کو منتقل کرنا، وفاقی کابینہ میں وزرا کی تعداد گیارہ کرنا، وزیراعظم کو مشترکہ مفادات کونسل کا سربراہ مقرر کرنا، اعلیٰ عدلیہ کے ججوں اور چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کے طریقے متعارف کرنا، آئین کو ہولڈ ان ایبی اینس رکھنے کو سنگین غداری قرار دینا اور مشترکہ فہرست (کنکرنٹ لسٹ) کا خاتمہ وغیرہ شامل تھے۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد وفاقی حکومت کو حاصل ہونے والے محاصل کا بڑا حصہ (58فیصد) صوبوں کو منتقل ہو جاتا ہے جبکہ باقی ماندہ 42فیصد میں سے اسلام آباد نے دفاعی بجٹ، وفاقی حکومت کے انتظامی اخراجات اور اندرونی اور بیرونی قرضوں کی ادائیگی کرنا ہوتی ہے۔ 2010 سے لیکر اب تک سیاستدان اٹھارہویں ترمیم کو بڑی کامیابی قرار دیتے آئے ہیں لیکن اب جا کر عقدہ کھلا ہے کہ اٹھارہویں ترمیم میں بھی خامیاں ہیں، تحریک انصاف کی حکومت کا مؤقف ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد وفاق دیوالیہ ہو گیا ہے، تحریک انصاف کی قیادت کے بقول صوبوں کو ان کا حصہ دینے کے بعد وفاق کے پاس سسٹم کو چلانے کیلئے پیسہ ہی نہیں بچتا ہے۔ یاد رہے اٹھارہویں ترمیم کے بعد تعلیم اور صحت کے شعبوں میں مرکز اور صوبے الگ الگ سوچ کیساتھ چل رہے ہیں، بلکہ آپس میں دست وگریباں بھی ہیں۔ فیصلہ یہ ہوا کہ اس خلا کو پر کیا جائے، اسی لئے اٹھارہویں آئینی ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ کیلئے مرکز اور صوبوں میں بات چیت شروع ہونے جارہی ہے۔ چھوٹی اور علاقائی جماعتوں نے مزاحمت شروع کی ہے، لیکن جو فیصلہ ہوچکا ہے اس پر عمل ہوگا۔ ان کے تحفظات کو مدنظر رکھتے ہوئے اٹھارہویں ترمیم پر نظرثانی ہوگی۔ اس ضمن میں مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کسی حد تک مشاورت کے عمل میں شریک بھی ہیں، تاہم اس کی تفصیلات سامنے نہیں لائی جارہی ہیں۔ فیصلہ بھی یہی ہوا ہے کہ اٹھارہویں ترمیم سمیت این ایف سی ایوارڈ پر بھی نظرِثانی کرنے کیلئے سیاسی جماعتوں کے درمیان بامعنی بات چیت میں زیربحث کوئی بھی نکتہ افشا نہیں کیا جائے گا۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی دونوں پراُمید ہیں کہ انہیں بہتر نتائج ملیں گے۔ اٹھارہویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان رابطے ہوچکے ہیں۔ اپوزیشن سیاسی رعایت مانگ رہی ہے۔ فی الحال تو یہ بات عجیب معلوم ہوگی لیکن حقائق یہ ہیں کہ نوازشریف کیلئے راستہ بنایا جارہا ہے تاکہ ان کی نااہلی ختم ہوجائے، تاہم اس کے بعد وہ سیاست میں متحرک نہیں رہیں گے اور اپنا جانشین نامزد کردیں گے۔ تبدیلیوں کا یہ پہلا فیز ہے، حکومت کے سربراہ عمران خان اور قومی سلامتی کے امور کی نگرانی کرنے والے چاہتے ہیں کہ حکومت اگلے تین سال عوام کی فلاح، معاشی بہتری اور عام آدمی کو براہِ راست فائدہ پہنچانے والے فیصلے کرے۔ یہ فیصلہ نہیں بلکہ تہیہ ہوچکا ہے کہ کرپشن، خواہ کسی بھی سطح پر ہو، کسی قیمت پر قابلِ معافی نہیں ہوگی، لہٰذا دیر یا بدیر حکومت آٹا، چینی اور پاور سیکٹر سمیت جہاں جہاں خرابی ہوئی ہے اسے ختم کرے گی۔
پاور سیکٹر کرپشن سکینڈل میں جو بھی ملوث ہے اسے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ پاور سیکٹر کے حوالے سے جو رپورٹ کابینہ میں پیش کی گئی، اس کے مطابق ندیم بابر، رزاق داؤد، خسرو بختیار اور عمر ایوب نے اس سے استفادہ کیا۔ رعایت دینے والوں میں اسد عمر بھی بالواسطہ شامل تھے، وہ اس وقت کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کے سربراہ، قومی اسمبلی کی کمیٹی برائے خزانہ کے سربراہ تھے، اور اس وقت وہ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے بھی سربراہ ہیں۔ جنرل باجوہ کی ہدایت پر جنرل حمود الزمان، اسد عمر کی اس جدید ترین مرکز میں معاونت کرتے ہیں۔ گویا اس وقت اگر کسی کے پاس اختیارات اور طاقت ہے تو وہ صرف اور صرف اسد عمر ہیں۔ کورونا نے جہاں اسد عمر کو بااختیار بنایا ہے وہاں کابینہ میں یہ چہ میگوئیاں بھی جاری ہیں کہ 50ارب کا کیش 12ہزار فی فرد کے حساب سے تقسیم ہوگیا، 74ارب روپے مزید تقسیم ہوجائیں گے اور 124ارب روپے کس میں تقسیم ہوئے اس کا ڈیٹا ہی شیئر نہیں کیا جارہا۔ کئی وفاقی وزراء تقاضا کررہے ہیں کہ بارہ ہزار روپے کس کس کو دئیے گئے ہیں اس ڈیٹا سے ہمیں مطلع کیا جائے۔ اس پر انہیں بتایا گیا کہ اس ڈیٹا کے حوالے سے مکمل پرائیویسی رکھی جائے گی۔ پنجاب کابینہ کے ارکان بھی اس حوالے سے تشویش کا شکار ہیں کہ انہیں اعتماد میں لئے بغیر رقم تقسیم کی جارہی ہے۔ اعظم سلیمان نے بیوروکریسی کو اوپر نیچے کرکے انتظامیہ کو چلا لیا تھا۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا انتظامیہ سے عمل دخل ختم ہوگیا تھا کیونکہ چیف سیکرٹری وزیراعظم اور پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کے بااعتماد تھے، طاقتور حلقے بھی ان کی کارکردگی سے خوش تھے مگر وزیراعلیٰ بزدار نے وزیراعظم سے ملاقات میں انہیں قائل کرلیا کہ چیف سیکرٹری بدلے بغیر کام نہیں چلے گا۔ اس فیصلے کے بعد سے عثمان بزدار ایک بار پھر پنجاب میں قوت پکڑ گئے ہیں۔ اس پس منظر کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ اٹھارہویں ترمیم میں نظرثانی کی چھتری تلے بہت سے کام نمٹا لئے گئے ہیں جس میں اپوزیشن کی جماعتوں کو تعاون کی شرط کیساتھ احتسابی عمل میں چھوٹ دی جائے گی لیکن کرپٹ لوگوں کو کٹہرے میں بھی لایا جائے گا جس میں اپوزیشن کیساتھ ساتھ حکومتی صفوں کے لوگ بھی شامل ہوں گے تاکہ جانبداری کے تاثر کو ختم کیا جا سکے یوں کہا جا سکتا ہے کہ اپوزیشن کی جماعتیں معمولی احتجاج کے بعد اٹھارہویں ترمیم میں نظرثانی کی بات نہ صرف مان لیں گی بلکہ تحریک انصاف کی حکومت کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے کا ہر ممکنہ حد تک موقع بھی فراہم کریں گی۔

مزید پڑھیں:  پولیس کی بروقت کارروائی اور تشدد