نیا آرمی چیف اور ہمارے قومی اہداف

جناب محترم جنرل عاصم منیر نے پاک آرمی کے نئے چیف کا عہدہ سنبھال لیا ہے ۔ مبارک ہو ۔ دنیا کے سارے ترقی یافتہ اور مہذب ممالک میں یہ ایک روٹین کی بات ہوتی ہے ۔لیکن تیسری دنیا کے ممالک خاص کر پاکستان جیسے ملک میں یہ ایک عام چیز نہیں ہوتی۔بلکہ ایک بڑی خبر ہوتی ہے ۔ کیونکہ ہمارے جیسے ملکوں میں مغربی استعمار سے آزادی حاصل کرنے کے بعد بھی نہ تو استعمار کا عمل دخل مکمل ختم ہوا ہے اور نہ ہم اپنی نااہلیت اور احمقانہ حرکتوں کی وجہ سے اپنے ادارے مضبوط بنا پائے ہیں۔ایڈہاک ازم چلتی رہتی ہے۔حالانکہ دیرپا کامیابیاں ایک ٹیم ورک اور شاک پروف نظام ہی سے ملتی ہیں۔جس میں کسی پرزے کے آگے پیچھے ہونے سے فرق نہیں پڑتا۔
یہ ہمارے لئے انتہائی مسرت کا باعث ہے کہ آزادی کے بعد پہلی مرتبہ ہمارے غازیوں پر مشتمل فوج کو ایسا سربراہ ملا ہے۔جس کی جڑیں اپنی اسلامی تہذیب اور جس کی شاخیں اپنے معاشرتی اقدار سے قوت حاصل کرتی رہی ہیں۔جو اپنے عقائد اور اہنے مسلم اقدار پر معذرت خواہانہ رویہ نہیں رکھتا۔ بلکہ اس پر فخر کرتا ہے۔ جو ایک سینئر فوجی افسر ہوتے ہوئے مدینہ منورہ میں قرآن حفظ کرتا ہے اور جس کے والد گرامی اور دو بھائی بھی قرآن کریم کے حافظ ہیں ۔سبحان اللہ یقین نہیں آرہا کہ ہم اپنی زندگیوں میں پاک فوج کے غازیوں کی کمان ایسے ہاتھوں میں دیکھ لیں گے جو ہمارے آرزووں اور تمنائوں کا امین ہوگا ۔ پاک فوج کا بنیادی ماٹو ایمان ‘تقویٰ ٰ’جہاد فی سبیل اللہ ہے ۔لیکن ایک منظم’ مضبوط اور باکردار پارلیمنٹ کی رہنمائی کی عدم موجودگی میں ہم اپنے منزل ‘امت مسلمہ کی فلاح اور اپنے بنیادی اہداف کا ابھی تک تعین ہی نہیں کرسکے ہیںاور بس بے سمت فوج ہی رہ گئے ہیں۔ہم نے اپنا خون بہا کر امریکہ کو تو دنیا کی اکلوتی سپر پاور بنا ڈالا لیکن ہمارے دامن میں صرف تباہی آئی۔معاشی طور پر ہم تباہ ہو گئے۔اور معاشرہ مذہبی مداریوں اور بے سمت جہادیوں کا شکار ہو کے رہ گیا۔
ہماری بہادر افواج انفرادی طور پر بلا شبہ دلیری اور بہادری کے سنہرے باب رقم کرتی رہی ہیں۔کشمیر میں اپنے اہداف کے تعاقب میں سر گرم رہی۔عرب اسرائیل جنگوں میں اپنے عرب بھائیوں کی مقدور بھر مدد کی ۔ اسرائیلی جہاز ہمارے شاہینوں ہی کے ہاتھوں تباہ ہوئے۔لیکن عربوں کے پاس کوئی لائحہ عمل ہی نہیں تھا ۔بوسنیا میں ہمارے مجاہدوں نے اپنے کلمہ گو بھائیوں کو بھرپور تحفظ فراہم کیا۔دنیا کی ایک سپر طاقت کو افغانستان میں ذلیل کرکے توڑ ڈالا اور دوسری طاقت کا افغانستان میں جو حشر ہوا۔وہ سب کے سامنے ہے۔لیکن ہمارے ہاتھ کیا آیا۔اجڑا ملک۔معیشت دیوالیہ اور عوام کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑ گئے ہیںاور ہم کبھی مغرب اور کبھی مشرق کی طرف امید کی نظر سے دیکھتے ہیں۔بھلا انسانی تاریخ میں کبھی کسی قوم نے اپنے مفادات کو بالائے طاق رکھ کر کسی دوسری قوم کے لئے قربانی دی ہے ؟ یہ تو قومی مفادات ہوتے ہیں جو قوموں کے درمیان تعلقات کا تعین کرتے ہیں ۔ تازہ ترین افشا شدہ امریکی دستاویزات بتا رہی ہیں کہ 1971میں ہماری مدد سے قائم شدہ دوستی کے آغاز ہی پر امریکہ اور چین کے درمیان جن امور پر اتفاق رائے ہوا تھا ان میں تائیوان کی جگہ چین کو اقوام متحدہ میں نمائندگی دینے اور بدلے میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر چین کی خاموشی شامل تھی۔ حقائق بڑے بے رحم ہوتے ہیں۔اگر امریکہ کا ساتواں بحری بیڑا ہماری مدد کیلئے نہیں پہنچا تھا تو چین نے بھی مستقبل کے نقشے اور اپنا مفاد دیکھ کر مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بننے پر آنکھیں بند کر لی تھیں۔
جمہوریت ایک مثالی طرز حکومت نہیں ہے لیکن گزشتہ پانچ ہزار سال کی معلوم انسانی تاریخ میں اس سے بہتر نظام حکومت دریافت نہیں ہو سکا۔خلفائے راشدین کے تین چار دہائیوں کی خلافت کے بعد کی خون ریزیاں سامنے۔ عربوں کی موجودہ آمرانہ حکومتوں کی ساری توانائیاں اپنے ہی عوام کے خلاف استعمال ہو رہی ہیں۔ منہ سے اف نکالنے والے بھی جمال خشوگی بن جاتے ہیں۔ تیل کی دولت مغربی بنکوں میں جمع ہو رہی ہے۔اسلام کے نام پر ایران میں مذہبی آمریت کا قیام اور حالیہ خون ریزیاں ۔ افغانستان کی نئی مذہبی حکومت جتنی بھی مخلص ہو لیکن قومی اتفاق رائے ؟ آخری انجام ؟ ۔چینی اور روسی نظاموں کو کوئی بھی نام دے دیں لیکن نتیجہ صرف ایک کہ روٹی کپڑا مکان فراہم کرنے کے نام پر زبانوں پر تالے۔اور معمول کے احتجاجوں پر بھی ٹینکوں سے چڑھائی ۔کیا انسان کی ضرورت صرف روٹی’ کپڑا ‘مکان اور جنس ہے ؟ کیا انسان جانور کی طرح سہولتیں ملنے پر ہی آسودہ رہ سکتا ہے۔؟ کیا انسان روبوٹ ہے جسے ریموٹ سے کنٹرول کرنا ہے ‘کیا روح اور روحانی خوشی جیسی نعمتیں’ذہنی آسود گیاں اور فکری آزادیاں انسان کا حق نہیں ہیں ؟ الحمد للہ ہم کسی خونریزی کے بغیر سرسبز اسلامی انقلاب کی منزل کی طرف بہت سا سفر طے کرکے آئے ہیں۔ مزید بہتری کی گنجائش موجود۔ میری پختہ رائے ہے کہ محب وطن سیاستدانوں اور جید علماء کرام کی طرف سے مرتب شدہ اور دستخط شدہ 1973 کے آئین کی پاسداری ہی میں ہماری فلاح ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل اور فیڈرل شریعت کورٹ کی نگرانی موجودگی میں مزید مہم جوئیوں کی ضرورت نہیں ۔ ہیرو بہت دیکھ چکے۔
نیوٹرل ہونا اچھی بات لیکن نیوٹرل ہونے سے پہلے جانبداری کے دور کا گند صاف کرکے جائیں ۔ مہذب ملکوں میں مینڈیٹ متنازعہ ہونے یا عوام کا اعتماد کھونے کی صورت میں نئے مینڈیٹ کیلئے عوام سے رجوع کیا جاتا ہے۔اپنا وزن فوری نئے انتخابات کے حق میں ڈالیں اور نئے الیکشن سے پہلے آئندہ پندرہ سال کے لئے ایک قومی میثاق معیشت’ قومی میثاق اخلاقیات اور بین الاقوامی سٹیج پر بطور ایک اسلامی ملک پاکستان کا رول متعین کرنے پر سیاسی پارٹیوں کے درمیان ایک معاہدے پر دستخط کرواکے سیاست کے گند سے دور ہو جائیں۔

مزید پڑھیں:  شاہ خرچیوں سے پرہیز ضروری ہے!