ٹھیس لگے بدھ بڑھے

سابق آرمی چیف جنرل قمر جا ویدباجوہ کی فوج سے رخصتی کے روز پی ٹی آئی کے میڈیا سیل نے یو م نجات منایا ، اس سے بڑھ کر محسن کشی اور کیا ہوسکتی تھی ، جنہو ں نے عوام کے مینڈیٹ کو الٹ کرتخت پر لا بٹھایا ان کے رخصت ہو نے پر ایسی دھو م مچائی جائے کم از کم یوتھیئوںکو زیب نہیں دیتا ، پی ٹی آئی کو اقتدار میں لانے کا سب سے بڑاگھا ٹامسلم لیگ ن کا ہو ا ، سوچنے کی بات ہے کہ اگر قمر جاوید باجوہ اور مبینہ طور پر فیض حمید نہ ہو تے تو عمر ان خان کی چھبیس سالہ سیا سی زندگی میں اقتدار کا گیروا رنگ چڑھ پا تا ، سیا ست جذباتیت کا کھیل نہیں ہے یہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی مسائل ومعاملا ت کو افہام وفراست سے حل کر نا کیا پاکستان میں ایساہوتاہے نہیں ، حقیقی آزادی لینے نکلے مگر ہر جگہ جذبات ہی کار فرما دکھائی دیئے ،بتایا جا رہا ہے کہ خان راولپنڈی اسمبلیوں سے کوچ کر جا نے کا ارادوہ لے نہیں چلے تھے مگر جب راولپنڈی اترے تو ان کو جلسہ گاہ جا نے کے لیے تین ساڑھے تین گھنٹے انتظار کرنا پڑ ا کیوں کہ مجمع پانچ ساڑھے پانچ ہزار سے بڑھ نہیں پا رہا تھا جب یہ اطلا ع ملی کہ آٹھ کے لگ بھگ ہو گیا ہے تو وہ تشریف لائے مگر ان کے جذبات اپنے ارکا ن کے لیے غصہ وافسوس سے بھرے ہوئے تھے یہ جذبات ان کو پا رٹی اور اتحادیو ں سے مشورہ کیے بغیر اسمبلیو ں سے کو چ کر جا نے کا سبب بنا کیو ںکہ اگر پی ٹی آئی کا ایک رکن اسمبلی دوہزار افراد جلسہ گاہ لے آتا تب بھی ڈیڑھ دولا کھ افراد جمع ہو سکتے تھے ، اسی جذباتی فیصلے نے کپتان کو ایک نئی الجھن میںڈال دیا ہے کہ اسمبلیو ں سے رخصتی کیسے اورکب حاصل کریں اور اس کے اثرات کیا ہو ں گے ،اگر کپتان کے اعلا ن کے مطا بق روبہ عمل ہو جائے تو اس کا اثر پنجا ب اور کے پی کے صوبوں پرہی پڑیں گے کیو ں کہ خالی ہو نے والی سیٹوں پر ضمنی انتخابات ہو ں گے ،پھر چند ما ہ بعد عام انتخابات متوقع ہیں ، پی ٹی آئی کے ارکا ن اسمبلی کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر عمر ان خان کے اعلا ن پر عمل کیا گیا تو اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ پی ٹی آئی کا ان کو دوبارہ ٹکٹ مل جائے اور پھر یہ بھی امکا ن ہے کہ عام انتخابات جب ہو نگے تو ان کو دوبارہ انتخابات میں جا ناپڑے گا ، انتخابی مہم کپتان کو اپنے لیے خود نہیں چلا نا پڑتی مگر دیگر امیدواروں کو تو بھا ری محنت اور کٹھن امتحان سے گزر نا پڑتا ہے پھر روپے پیسے کی پھول جھڑیاں بھی چھو ڑنا پڑتی ہیں یہ نہ احسان کھیل ہے نہ آسان کھیل ہے ۔چنانچہ کے پی کے ترجمان بیرسٹرمحمد علی سیف کا بیا ن آیا ہے کہ اگرپنجا ب اسمبلی نہ توڑی گئی تو کے پی کے کی اسمبلی توڑنا بے سود ہوگا ، بات تو ٹھیک ہے ، مگر پنجا ب اسمبلی کے نہ ٹوٹنے کا سوال کیو ں پیدا ہوا ، اس امر کا اندازہ یوں ہو تا ہے کہ پر ویز الہی کا مئوقف ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے ورکریا ایم پی اے نہیں ہیں ، اتحا دی ہیں اتنا بڑ ا فیصلہ کر نے سے پہلے اتحادیوں سے صلا ح مشور ہ کر نا لیناضروری ہو تا ہے ، گو انھو ں نے دل رکھنے کے لیے یہ تو کہہ دیا کہ عمر ان خان جب کہیں گے ایک منٹ کی بھی تاخیر اسمبلی توڑ نے میں نہ برتی جائے گی تاہم وہ بھی پی ٹی آئی سے کھیل رہے ہیں کہ تین دن سے لگا تار عمر ان خان ان کی راہ میں آنکھیں لگا ئے بیٹھے ہیں مگر آنے کا وعد ہ وعد ہ ہی رہا جاتا ہے شنید ہے کہ جمعرات کو ان کی ملاقات متوقع ہے ممکن ہے کہ گفتگو کا لم چھپنے تک ملاقات کا مرحلہ طے پاچکا ہوگا ، اس وقت پنجا ب اسمبلی میںپر ویز الہی کی پو زیشن مضبوط ہے گو کہ وہ پی ٹی آئی کی بیساکھیوں پر کھڑی ہے لیکن وہ یہ جا نتے ہیں کہ کپتان کو کن حالا ت کی وجہ سے ان کو وزیر اعلیٰ بنا ناپڑا ۔ اگر اسمبلی تو ڑ دی جائے تو پھر پر ویز الہی کا دوبارہ وزیراعلیٰ بننے کے امکا نات کتنے فی صد ہو ں گے ، مسلم لیگ ن اس تگ و دو میں تو ہے کہ کسی طرح پنجا ب اسمبلی کو بچا لیا جائے عددی اعتبار سے بظاہر ایسا ممکن نہیں مسلم لیگ ن کا سارا زور پنجا ب اسمبلی کو بچانے پر ہے اگر پنجاب اسمبلی کو بچانے میں مسلم لیگ ن کا میاب ہو جا تی ہے تو پھر کے پی کے اسمبلی بھی بچ جائے گی چنانچہ کے پی کے اسمبلی کے لیے فیصلہ پنجا ب اسمبلی کے انجا م تک مئوخر رہے گا ،بہر حال جذبات پھر ایسے ہی تما شے لگا تا ہے ، یو تھئیا میڈیا تو یو ں بغلیں بجا رہا ہے کہ پی ڈی ایم ان کے گھن چکر میں پھنس گئی ہے جبکہ یہ اعلا ن خود ان کے لیے درد سر بنا ہوا ہے ، وہ ایسے کہ مسلم لیگ ن تو اسمبلیاںبچانے میں مصروف ہے لیکن کپتان کو اپنے ارکان کی رائے کا بھی کٹھن سامنا کر نا پڑ رہا ہے ، کیو ں کہ اسمبلیوں سے کوچ کر نے کا اعلان کر تے وقت عمر ان خان نے فرمایا تھاکہ وہ اس نظام کا حصہ نہیں رہنا چاہتے لیکن ارکا ن سوال کر رہے ہیں کہ ضمنی انتخاب میں اور عام انتخابات میں دونو ں میںاسی نظام کا حصہ بننا پڑے گا تو پھر کوچ کا کیافائدہ ۔اور اب 2018 والی اسٹبلشمنٹ بھی نہیں رہی ہے ، جس کا اندازہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی صدر مملکت عارف علوی اور وزیر اعظم شہباز شریف سے ملا قات کی تصاویر سے لگایا جارہا ہے ، نا قدین اس پر تبصرے کر رہے ہیں ، تاہم ایک اہم خبر یہ ملی ہے جس کے راوی ایک تجر بہ کا ر اورمنجھے ہوئے صحافی مرتضیٰ سولنگی ہیں ان کی خبرہے کہ دوران ملا قات صدر عارف علوی نے جنرل عاصم منیر سے عمر ان خان کی ٹیلی فون پر بات کرانے کی سعی کی مگر جنرل عاصم منیر نے بات کر نے سے گریز کیا ، ویسے بھی ایسے موقعوں پر یہ ماحول پیدا کرنا مناسب نہیںہے ، ایسی کے پی کے وزیر اعلیٰ محمو د خان نے بھی کامیا ب کو شش کی تھی جب امر یکی سفیر ایمبولنس کا تحفہ دینے تشریف لائے تھے تو ان کی وزیر اعلیٰ نے عمران خان سے ٹیلی فونک ملاقات کرائی تھی ،امریکی سفیر پر یا د آیا کہ گزشتہ روز پی ٹی آئی کے ہر اول دستے کے لیڈر فواد چودھری نے امریکی سفارت خانے جا کر امریکی سفیر سے ملا قات کی لیکن ملا قات ہو نے کی خبر کے علاوہ کوئی دوسری تفصیل سامنے نہیں آئی ،عوام اس ملاقات پر حیر انی کا اظہا ر کر رہے ہیںکیو ںکہ عمران خان انتہائی اس امر کے مخالف ہیں کہ اپو زیشن کے لیڈر امریکی سفیر سے ملا قاتیں کر یں چنانچہ جب انھوں نے امریکی سازش کا بیانیہ رواںدواں کیاتھا تب کئی مرتبہ اپو زیشن کے ارکا ن کی امریکی سفیر سے ملا قات پر بھر پور تنقید کی تھی ، فواد چودھری کی اس ملا قات کے بارے میں نہ تو امریکی سفارت خانے سے نہ پی ٹی آئی کی طرف سے کوئی خبر یا تبصرہ کیا گیا ، تاہم کچھ صحافیوں نے امریکی سفارت خانے سے اس ملا قات کے بارے میں جان کاری چاہی تو ان کو بس اتنا بتایا گیا کہ سفیر صاحب سیاستدانوں سے ملتے رہتے ہیں اگر ملاقات کر نا چاہے تو اس کو انکا ر نہیں کر تے ، اس سے آگے کچھ نہ کہا ہے ۔فواد چودھری کی امر یکی سفارت خانہ جانا یانہ جا ناکوئی اہمیت کی بات نہیں ہے تاہم اتنا ضرور ہے کہ اگر کسی دوسری جما عت کا لیڈر یا ورکر ملاقات کرلیتا تو یوتھئیا میڈیا ایک طوفان اٹھا دیتا ۔

مزید پڑھیں:  ''ظلم دیکھ کر چپ رہنا بھی ظلم ہے''