ایک بار پھر مذاکرات

پیپلزپارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ٹی ٹی پی کی جانب سے جنگ بندی ختم کرنے کا اعلان اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ پاکستان کے لوگوں کو بے خبر رکھا جا رہا ہے، پرتشدد انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے واضح پالیسی کی ضرورت ہے۔ٹی ٹی پی کے مطابق جنگ بندی ختم کرنے کا فیصلہ ضلع لکی مروت میں فوجی تنظیموں کی جانب سے مسلسل حملوں کے بعد کیا گیا ہم نے پاکستانیوں کو بارہا خبردار کیا اور صبروتحمل کا مظاہرہ کیا تاکہ مذاکراتی عمل سبوتاژ نہ ہو۔دریں اثناء وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کے معاون خصوصی برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت کو تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات ختم نہیں کرنے چاہئیں کیونکہ عسکریت پسندوں کے خلاف سکیورٹی فورسز کا آپریشن مسائل کا مستقل حل نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ ملک میں پائیدار امن کے قیام کے لیے مذاکرات ایک بہتر راستہ ہیں۔معاون خصوصی نے کہا کہ ماضی میں دہشت گردوں کو فوجی آپریشن کے ذریعے ختم کیا گیا مگر بدقسمتی سے انہیں افغانستان کی زمینی حالتوں سے فائدہ ملا۔پارلیمان کو اعتماد میں لئے بغیر بعض اہم معاملات خاص طور پر ٹی ٹی پی سے معاملت کی جویکطرفہ مساعی کی گئیں قطع نظر اس طریقہ کار کے بہرحال یہ مساعی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئیں اور آج ایک مرتبہ پھر ملک میں دہشت گردی کے واقعات ہونے لگے ہیں فوج کی نئی قیادت اور حکومت ہر دونوں کو اس مسئلے پر ازسرنو غور کرنے کی ضرورت ہے جس کاتقاضا ہے کہ پائیدار بنیادوں پر اس مسئلے کا قابل قبول اوربااعتمادحل تلاش کرنے کے لئے پارلیمان میں بحث مباحثہ اور اس کی دی گئی ہدایات اور طریقہ کار پر عسکری قیادت کی سفارشات کوبھی شامل کرکے ایک مشترکہ و متفقہ لائحہ عمل وضع کرکے اس پر عمل پیرا ہو اجائے اس ضمن میں ایک مرتبہ پھرمذاکرات اور معاملت ہی کی طرف مراجعت کی ضرورت ہو گی جہاں تک ٹی ٹی پی کے گزشتہ مطالبات اور شرائط کا تعلق ہے یقینا وہ سخت اور ناقابل قبول ہیں ان شرائط کوپارلیمان کے سامنے رکھنے پراعتدال کا کوئی راستہ نکل آسکتا ہے دوسری جانب طالبان قیادت کو بھی بہرحال ایسی شرائط رکھنے سے گریز کرنا ہو گا جو ناممکن ہوں اور معاملات پھر جنگ اور طاقت کے استعمال کی طرف چلے جائیں۔ اس ضمن میں پاکستان اور افغانستان کی حکومتوں کو بھی اس امر کو مدنظر رکھنا ہو گا کہ جب بھی کسی ایک ملک میں حالات میں کشیدگی اور تصادم کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اس کے اثرات دوسرے ملک کے حالات پر بھی پڑتے ہیں بہتر یہی ہو گا کہ اس ضمن میں دونوں ممالک حکومتی سطح پر اور اندرونی گروپوں ہر دوسطح پر مسئلے کا پائیدار حل نکالنے کی سنجیدہ سعی کریں اور خطے میں کشیدگی کاسبب بننے والے حالات کاقابل قبول حل نکال کر کشیدگی کا خاتمہ کیا جائے۔
نیمے دروں نیمے برون
تحریک انصاف کی قیادت کیجانب سے اسمبلیوں سے الگ ہونے کے اعلان کے بعد پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتظامی مشینری کا ابہام کا شکار ہونا فطری امر ہے مخمصے کا شکار اعلیٰ سطح کے افسران نے ترقیاتی، مالیاتی اور بھرتیوں سے متعلق امور کو ایک طرف رکھتے ہوئے خود کو صرف روزمرہ دفتری امور تک محدود کر دیا ہے۔دوسری جانب صوبے میںپی ٹی آئی کے عہدیداروں کی جانب سے استعفے کے باوجود سرکاری پرو ٹو کول استعمال کر رہے ہیں اور سرکاری کام بھی نپٹا رہے ہیںسیاسی معاملات کی حد تک تحریک انصاف کی حکمت عملی اپنی جگہ لیکن ایک جانب اعلان اور دوسری جانب حکومتی معاملات اور امور چلانا ابہام پیدا کرنے کا باعث ہے البتہ جب تک اعلان کے مطابق باقاعدہ طریقہ کار کے ساتھ حکومت چھوڑنے اور اسمبلیاں تحلیل نہیں ہوتیں یہ فرض نہیں کیا جاسکتا کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت نہیں رہی ابہام کے خاتمے کے لئے ضروری ہے کہ یا تو اعلان پرعملی طور پر اور طریقہ کار کے مطابق عمل کیا جائے یا پھر اعلان سے واضح طور پر رجوع کیاجائے۔
پانی کی بچت
واپڈا حکام کے مطابق پاکستان میں پانی کی فی کس دستیابی908کیوبک میٹر سالانہ کی تشویشناک سطح تک گر چکی ہے۔یہ مقدار بہت کم ہے خاص طور پر اگر اس کا موازنہ 1951سے کیا جائے۔1951میں پانی کی فی کس دستیابی 5 ہزار650کیوبک میٹر سالانہ تھی۔پانی ذخیرہ کرکے مستقبل کی ضروریات پوری کرنے پر ہنگامی بنیادوں پرتوجہ اور منصوبہ بندی طویل المدت عمل ہے جس پر توجہ دی جانی چاہئے علاوہ ازیں بھی قلیل المدت بلکہ فوری طور پر نافذ العمل اقدامات کی بھی ضرورت ہے جس کے تحت پانی کے ضیاع کے تمام اسباب کا خاتمہ شامل ہے پانی کا کفایت سے استعمال بارے بھی شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے اور جن علاقوں میں پانی گلی میں بہنے کی شکایات ملتی ہیں یا جہاں جہاں سروس سٹیشنز پرپانی کا بے دریغ استعمال ہوتا ہے ان تمام امور پر توجہ بھی پانی کی کمی کے تدارک کی مساعی کا ایک موثر حصہ ہو سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  اک نظر ادھربھی