موسمیاتی انصا ف کیلئے مزید کوششیں درکار

مصر کے شہر شرم الشیخ میں منعقدہ کوپ 27 میں 200 سے زائد ملکوں کے نمائندوں نے نقصان و تباہی کے ازالے کیلئے فنڈ( لاس اینڈ ڈیمیج فنڈ ) قائم کرنے پر اتفاق کیا، یہ فنڈ دراصل ترقی پذیر و پسماندہ ممالک کی طرف سے امیر ملکوں کی طرف سے زہریلی گیسوں کے اخراج کی بدولت موسمیاتی آفات سے انہیں درپیش نقصانات کی تلافی کا مطالبہ ہے، فنڈ کے قیام کے مطالبے کو ترقی پذیر ممالک کی بین الحکومتی تنظیم ” گروپ77 ” نے آگے بڑھایا اور اس بات کو یقینی بنایا کہ اسے کوپ 27 کے ایجنڈے میں شامل کیا جائے۔
نقصان و تباہی کے ازالے کے فنڈ کا تصور 1991ء کا ہے جب نشیبی ساحلی و چھوٹے جزیرے کے حامل ملکوں کے اتحاد ”الائنس آف سمال آئز لینڈ اسٹیٹس” نے سطح سمندر میں اضافے سے متاثرہ ممالک کی تلافی کے حوالے سے لائحہ عمل تیار کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ بالآخر اس نے کوپ کے نتیجے میں اس وقت ایک ٹھوس فیصلے کی شکل اختیار کی جب 2010 ء میں،کوپ 16میں نقصان و تباہی کا پروگرام کا آغاز کیا گیا، جس کے نتیجے میں 2016 ء ہونے والی کوپ 19میں” وارسا انٹرنیشنل میکانزم آن لاس اینڈ ڈیمیج” کا قیام عمل میں آیا۔
ترقی پذیر ممالک لاس اینڈ ڈیمیج فنڈ کے اعلان کو اہم پیش رفت قرار دیتے ہوئے اس پر بھرپور ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں، بلاشبہ اس فنڈ کے قیام کا اعلان ترقی پذیر ممالک کے اتحاد کی اجتماعی اور شاندار کوششوں کا نتیجہ ہے۔ الائنس آف سمال آئی لینڈ اسٹیٹس کے سربراہ مولون جوزف نے ایک بیان میں کہا کہ کوپ27میں کیے گئے معاہدے ہماری پوری دنیا کی جیت ہیں، وزیراعظم پاکستان نے بھی اس پیشرفت کو سراہا اور اپنے ایک ٹویٹ میں کہا” اقوام متحدہ کے موسمیاتی سربراہی اجلاس میں نقصان اور نقصان کے فنڈ کا قیام موسمیاتی انصاف کے ہدف کی طرف پہلا اہم قدم ہے، اب یہ عبوری کمیٹی پر منحصر ہے کہ وہ تاریخی پیشرفت کو آگے بڑھائے۔
اگرچہ فنڈ کا قیام موسمیاتی انصاف کی جانب ایک بڑا قدم ہے” لیکن اس کے ثمرات حاصل کرنے کے لیے کئی طرح کے چیلنجز درپیش ہیں اور اس فنڈ کے فعال ہونے میں تاخیر ہو سکتی ہے جس کے لیے ترقی پذیر ممالک کے بلاک کو اپنی جدوجہد اور انصاف کا مطالبہ جاری رکھنا ہو گا، سال 2023 ء فنڈ کو فعال بنانے کے حوالے سے ایک حتمی مدت کے طور پر مقرر کیا گیا ہے، دیکھا جائے تو کرہ ارض کو بچانے کے لیے کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے لیے بات چیت کئی دہائیوں سے جاری ہے، لیکن موسمیاتی تباہی کے واقعات ہر گزرتے سال کے ساتھ بڑھتے جا رہے ہیں، ترقی یافتہ ممالک کی طرف سے کاربن کے اخراج میں کمی کے وعدے عملی اقدامات سے کوسوں دور ہیں، ایسی صورت حال میں کسی واضح حکمت عملی کے بغیر ٹائم لائن یا حتمی مدت تک لاس اینڈ ڈیمیج فنڈ کا قیام پہلا بڑا چیلنج ہے، دوسرا چیلنج فنڈز جمع کرنے کے حوالے سے واضح اور مناسب طریقہ کار وضع کرنا ہے، فنڈز جمع کرنے کے لیے چار ممکنہ آپشن ہو سکتے ہیں، پہلا یہ کہ بوجھ بانٹنے اور فنڈز فراہم کرنے کی ذمہ داری امیر ملکوں میں کاربن کے اخراج کی مقدار کے تناسب سے تقسیم کی جائے، لیکن اس طریقہ کار کی وہ ممالک مخالفت کریں گے جو سب سے زیادہ کاربن کا اخراج کرتے ہیں کیونکہ مالیاتی بوجھ کا بڑا حصہ ان پر پڑے گا، دوسرا یہ کہ گرین کلائمیٹ فنڈ کی طرح سالانہ رقم مقرر کی جا سکتی ہے، مقررہ رقم کو تمام امیر ممالک سالانہ بنیادوں پر یکساں طور پر بانٹ سکتے ہیں، لیکن اس طریقہ کار پر وہ ممالک اعتراض کریں گے جن کا عالمی کاربن کے اخراج میں تو کردار ہے لیکن وہ سب سے زیادہ آلودگی پھیلانے والوں میں شامل نہیں ہیں، تیسرا یہ کہ کس نے کتنی رقم فراہم کرنی ہے؟ اس حوالے سے کسی امیر ملک کو پابند نہیں کیا جائے گا، لیکن ذمہ داری کا تعین کیے بغیر ایسا طریقہ امیر ممالک میں غیر سنجیدہ رویے کو فروغ دے گا، ایک اور چیلنج یہ فیصلہ کرنا بھی ہے کہ آیا صرف امیر ممالک لاس اینڈ ڈیمیج فنڈ میں حصہ ڈالیں یا منافع کمانے والی صنعتوں کو اس کا حصہ بنایا جائے۔
تیسرا چیلنج فنڈز فراہم نہ کرنے پر صنعتی اور دولت مند ممالک کے لیے کسی بھی تادیبی اقدام کے فقدان کا ہے، ترقی پذیر ممالک کو گرین کلائمیٹ فنڈ کے لیے سالانہ 100 ارب ڈالر (جن کا امیر ملکوں نے وعدہ کیا تھا) جمع کرنے کے لیے بھی اسی چیلنج کا سامنا ہے، چوتھا چیلنج موسمیاتی تبدیلی کی تباہ کاریوں سے ہونے والے نقصانات کا سامنا کرنے والے ترقی پذیر ممالک کے درمیان فنڈز کی تقسیم کا طریقہ کار ہوگا، مذکورہ بالا کچھ ایسے چیلنجز ہیں جو ترقی پذیر ممالک کے بلاک کے لیے لاس اینڈ ڈیمیج فنڈ پر مزید عملی پیشرفت کے لیے بات چیت اور کوششوں کے لئے توجہ کے متقاضی ہیں۔
(بشکریہ، دی نیوز، ترجمہ: راشد عباسی)

مزید پڑھیں:  کیا بابے تعینات کرنے سے مسائل حل ہوجائیں گے