سودی نظام کے خاتمے کی احسن مساعی

وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار نے کہا ہے کہ حکومت ملک سے سودی نظام کے خاتمے کے لیے پرعزم ہے حکومت اسلامی بینکنگ نظام میں دلچسپی بھی رکھتی ہے اور عملی طور پر کوشش بھی کر رہی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اسلامی بینکوں کے اثاثے 70 کھرب روپے ہیں اور ان کے ڈپازٹس 5 ہزار ارب کے ہیں یعنی اس کی بنیاد پڑ چکی ہے اس وقت ملک میں 21 فیصد اسلامی بینکنگ نظام آچکا ہے جبکہ اسے ابھی مزید تیز رفتاری سے بڑھنا ہے۔انہوں نے کہا کہ سود سے پاک معاشرے کے حقیقی فوائد حاصل کرنے کے لیے اسلامی بینکنگ کے ساتھ ساتھ غیر بینکاری شعبوں کو بھی اسلامی بنیادوں پر ترقی دینی ہوگی۔واضح رہے کہ اس سال اپریل میں وفاقی شرعی عدالت نے وفاقی حکومت کو ملک میں اسلامی اور سود سے پاک بینکاری نظام کے نفاذ کے لئے پانچ سال کا وقت دیا تھا اور واضح طور پر فیصلے میں کہا تھا کہ سود کا خاتمہ اسلامی نظام کے لئے بنیادی حیثیت رکھتا ہے اور سود سے متعلق کوئی بھی لین دین غلط ہے۔وفاقی شریعت عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ سود کا خاتمہ اور اس کی روک تھام اسلام کے مطابق ہے۔ قرض سمیت ہر صورت میں لیا گیا سود ربا میں آتا ہے اور سود اسلام میں مکمل طور پر حرام ہے۔شرعی عدالت کے فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ حکومت کی جانب سے بیرونی اور اندرونی قرضوں پر دیا جانے والا سود بھی سود کے تحت آتا ہے اور حکومت کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ اندرونی، بیرونی قرضوں اور لین دین کو سود سے پاک کیا جائے۔عدالت نے کہا تھا کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سمیت بین الاقوامی اداروں کے ساتھ لین دین کو بھی سود سے پاک کیا جائے۔سپریم کورٹ کے شریعت ایپلٹ بینچ نے2001 میں سودی نظام کے خاتمے کے حکم پر عمل درآمد کا حکم دیا تھا، جس کے بعد یہ معاملہ وفاقی شرعی عدالت کے پاس چلا گیا تھا۔وفاقی شرعی عدالت نے حکومت کو ملک میں سود سے پاک بینکنگ سسٹم کے نفاذ کے لئے پانچ سال کا وقت دیتے ہوئے حکم دیا تھا کہ ایسا نظام 31دسمبر2027تک ملک میں نافذ کیا جائے۔عدالت نے کہا تھا کہ اگر آرٹیکل 38ایف برسوں پہلے نافذ ہوتا تو سود ختم ہو چکا ہوتا۔ اس میں مزید کہا گیا تھا کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ20فیصد بینکنگ اسلامی نظام کی طرف منتقل ہو چکی ہے اور ملک میں اسلامی اور سود سے پاک بینکاری نظام کے نفاذ کو یقینی بنانے کے لئے پانچ سال کافی ہیں۔عدالت نے سود ایکٹ1839اور سود کی سہولت فراہم کرنے والے تمام قوانین اور دفعات کو بھی غیر قانونی قرار دیا تھا۔عدالت کے احکامات پرحکومت کا سودی نظام کے خاتمے کا اعلان نہایت احسن اور قابل صد مبارک باد اعلان ہے اس ضمن میںعملی طور پر اقدامات اور سودی نظام کے خاتمے میں کس حد تک کامیابی ہوتی ہے اور اس راہ میں مشکلات کیا ہیں ان تمام امور سے قطع نظر حکومت کی جانب سے فیصلے کے خلاف اپیلوں کی واپسی کی صورت میں پہلا قدم اٹھایا گیاہے جس سے کم از کم اس مشکل راہ میں کم سے کم سفر کا آغاز اور عزم تو ظاہر ہے امر واقع یہ ہے کہ یہ نہایت پیچیدہ معاملہ ہے جس میں صرف ملکی معاملات ہی نہیں بین الاقوامی معاہدات بھی شامل ہیں جن کی پابندی بہرحال ہونی ہے اس ضمن میں حکومت اور علمائے کرام کیا طریقہ کار وضع کرتے ہیں اور کیا طور طریقے اختیار کئے جاتے ہیں یہ فی ا لوقت کا موضوع بھی نہیں اور نہ ہی اس بارے میں کوئی حتمی رائے دی جا سکتی ہے یہ صرف بیرونی ممالک ہی سے معاملت کا نہیں بلکہ خود ملکی اداروں میں اور ملکی بینکاری نظام بھی سودی ہی پر قائم ہے سٹیٹ بینک اور کمرشل بینکوں میں سودی لین دین ہی بینکنگ کے نظام کی بنیاد ہے اور کمرشل بینک صارفین اور کھاتہ داروں سے بھی سودی لین دین ہی کرتے ہیں یہاں تک کہ جن معاملات میں اسلامی بینکاری شراکہ ‘ مرابحہ اور اجارہ جیسے اسلامی طریقے وضع ہیں اور اس پر کامیابی سے عملدرآمد ہو رہا ہے نیز اسلامی بینکاری سودی بینکاری کے مقابلے میں زیادہ کامیابی اور منافع سے چل رہا ہے جس کے باعث سودی بینک اپنے اسلامک بینکنگ برانچوں کی تعداد میں اضافہ بھی کر رہے ہیں اور ایک حوصلہ افزاء امر جاری ہے مگر اس کے باوجود اس نظام کے حوالے سے شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں سب سے بڑا اعتراض صرف نام کی تبدیلی کا لگایا جاتا ہے باقی معاملات اور شرح منافع تقریباً یکساں اور ایک جیسا طریقہ کار چل رہا ہے جس کے اثرات معیشت کے تمام شعبوں اور عوامل پر بھی مرتب ہوتے ہیں سودی نظام کا خاتمہ صرف بینکاری کے نظام میں تبدیلی نہیں بلکہ جملہ معیشت کے اصولوں اور کاروبار کی تبدیلی ہے یہ ایک نہایت عرق ریزی کا اور پیچیدہ کام ہے ایسے میں عزم بہرحال حوصلہ افزاء ہے اس سے کم از کم ایک ابتداء تو ہوگی اور اس راستے کی مشکلات کے باوجود بہرحال یہ ناممکن نہیں اگراس پر سنجیدگی سے کام ہو تو یقینا راستے نکل سکتے ہیں بھلے مقررہ مدت تک معیشت پوری طرح اسلامی قالب میں نہ بھی ڈھالا جا سکے تو کم از کم اس میں پیشرفت تو ضرور ہو گی۔ اس ضمن میں علمائے کرام اور معیشت دانوں پرایک دینی اور ملی فریضہ عاید ہوتا ہے کہ وہ اس ضمن میں ہر طرح سے تعاون اور طریقہ کار وضع کرنے میں اپنا کردار ادا کریں حکومت کو اس ضمن میں اب مزید وقت ضائع کئے بغیر ماہرین کی ٹیمیں تشکیل دے کر سودی نظام سے چھٹکارا پانے کے عمل کاسنجیدگی سے آغاز کرنا چاہئے اس ضمن میں علماء کی جانب سے برموقع جو تجاویز پیش کی گئی ہیں اس کی روشنی میں مزید اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ عملی طور پر سودی نظام سے چھٹکارا حاصل کرنے کی طرف بڑھا جاسکے ۔

مزید پڑھیں:  ڈیٹا چوری اور نادرا؟