وفاق میں تخت لاہور کی اہمیت

پنجاب 12 کروڑ سے زائد آبادی کا صوبہ ہے، قومی سیاست میں پنجاب کی اہمیت سے انکار کی گنجائش نہیں اس بنا پر کہا جاتا ہے کہ پنجاب اپنا وزن جس پارٹی کے پلڑے میں ڈال دے، وفاق میں اسی جماعت کی حکومت قائم ہو جاتی ہے۔ رواں برس پنجاب اسمبلی میں عثمان بزدار کے خلاف تحریک عدم اعتماد آئی تو انہوں نے اس کا سامنا کرنے کی بجائے استعفیٰ دے دیا، بعد ازاں حمزہ شہباز اور پرویز الہٰی وزارت اعلیٰ کیلئے مدمقابل تھے اس وقت سے لیکر آج تک پنجاب میں سیاسی حالات کشیدہ ہیں، اگر پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں حکومت کیلئے کام کرنا آسان نہیں رہا ہے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے مسائل حل نہ ہونے کی اصل وجوہات کیا ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کچھ عرصہ پہلے تک عمران خان اور پرویز الہی پنجاب حکومت کو بچانے کیلئے سپریم کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کر رہے تھے مگر اپنے مفاد کیلئے آج اسی حکومت کو گرانے پر تلے بیٹھے ہیں، بنیادی سوال مگر یہ ہے کہ کیا تحریک انصاف پنجاب حکومت کو گرا دے گی؟ ہماری دانست کے مطابق تحریک انصاف کیلئے پنجاب حکومت کو ختم کرنے کا فیصلہ کرنا چند وجوہ کی بنا پر آسان نہیں ہو گا۔ حکومت گرانے کی مخالفت سب سے پہلے تحریک انصاف اراکین کی طرف سے سامنے آئی ہیں، تحریک انصاف پنجاب کے اراکین نے اجلاس میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ حکومت کو گرانے کا فیصلہ مؤخر کر دیا جائے، کچھ اراکین نے کہا کہ انہوں نے ترقیاتی کاموں کا آغاز کر رکھا ہے جو اگلے چند ماہ میں پورے ہونے ہیں اگر فوری طور پر اسمبلیوں کو تحلیل کر دیا جاتا ہے تو ان ترقیاتی کاموں کا کریڈٹ کوئی اور لے جائے گا۔ ان حقائق کو سامنے رکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ تحریک انصاف اسمبلیاں تحلیل کرنے کے فیصلے پر عمل نہ کر پائے گی۔
تحریک انصاف کو پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے میں دشواری اس لئے بھی ہے کیونکہ پنجاب حکومت ق لیگ کے ووٹوں پر قائم ہے اور وزیراعلیٰ بھی ق لیگ کا ہے، وزیراعلیٰ کی ترجیحات واضح ہو چکی ہیں کہ وہ حکومت گرانے کے حق میں نہیں ہیں، اس کی سب سے بڑی وجہ اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے ق لیگ اور تحریک انصاف کا الگ الگ مؤقف ہے، تحریک انصاف اسٹیبلشمنٹ مخالف مؤقف اپنائے ہوئے ہے جبکہ ق لیگ اسٹیبلشمنٹ کیلئے نرم رویہ رکھتی ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ تحریک انصاف سبکدوش ہونے والے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پر تنقید کرتی دکھائی دیتی ہے جبکہ اس کے برعکس ق لیگ ان کی خدمات کی معترف ہے وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الہی نے تو سابق آرمی چیف خدمات گنوا کر انہیں خراج تحسین بھی پیش کیا ہے۔ ان حالات میں تحریک انصاف ق لیگ کی ناراضی افورڈ نہیں کر سکتی ہے کیونکہ اس صورت میں پورا پنجاب اس کے ہاتھ سے چلا جائے گا۔ ق لیگ کے حوالے سے ایک خیال یہ بھی ہے کہ مونس الہی کے کہنے پر پرویز الہی نے تحریک انصاف کا اتحاد قبول کیا ہے، ابتدا میں پرویز الہٰی تحریک انصاف کے ساتھ چلنے کیلئے آمادہ نہ تھے، مگر مونس الہی کے حالیہ انٹرویو سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ بھی ق لیگ کے پرو اسٹیبلشمنٹ مؤقف سے الگ نہیں ہیں، مونس الہی نے دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ وہ تحریک انصاف کے اسٹیبلشمنٹ مخالف مؤقف سے اتفاق نہیں کرتے ہیں، یہ پہلا موقع ہے کہ مونس الہی تحریک انصاف کے خلاف کھل کر سامنے آئے ہیں۔ ق لیگ اور تحریک انصاف کے درمیان اگر یہ کشیدگی برقرار رہتی ہے تو ممکنہ طور پر اس کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں ایک یہ کہ تحریک انصاف پنجاب اسمبلی کو تحلیل کرنے کے مؤقف سے پیچھے ہٹ جائے، دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ تحریک انصاف پنجاب اسمبلی کو توڑنے کے مؤقف سے پیچھے نہ ہٹے اور اس کا فائدہ تیسرا فریق اٹھا لے۔ تیسرا فریق اتحادی جماعتیں ہیں، تخت لاہور کا ٹاسک آصف زرداری کو دیا گیا ہے اور ان کا دعویٰ ہے کہ وہ اسمبلی کو بچانے کیلئے قانونی آپشنز میں رہتے ہوئے اقدام اٹھائیں گے انہوں نے خیبرپختونخوا اور پنجاب میں سرپرائز دینے کا دعویٰ کیا بھی ہے یہ سرپرائز کیسا ہو گا اس بارے حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا، تاہم ایک بات کافی حد تک واضح ہے کہ تحریک انصاف کمزور وکٹ پر کھیل رہی ہے۔ پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کی حکومت کے پاس 190 ووٹ ہیں جبکہ اپوزیش کے پاس 180ووٹ ہیں، ق لیگ کے 10 ووٹ ہیں ایک آزاد امیدوار بھی ق لیگ کے ساتھ ملا ہوا ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ ق لیگ کے ووٹ جدھر جائیں گے پنجاب میں اس اتحاد کی حکومت قائم ہو جائے گی۔
کیسی ستم ظریفی ہے کہ جن عوامی نمائندوں نے ملک اور عوام کو حل کرنا تھا وہ اقتدار کیلئے آپس میں گتھم گتھا ہیں، سیاسی اختلاف جمہوری معاشروں کی پہچان ہے مگر ہمارے ہاں جس قسم کا اختلاف پایا جاتا ہے دنیا میں اس کی مثال ملنا مشکل ہے، یہ واضح ہو چکا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو ملک و قوم کے مفاد سے ذاتی مفاد عزیز ہے ورنہ یہ کیسے ممکن ہے جس حکومت کو بچانے کیلئے کچھ عرصہ پہلے تک تحریک انصاف سپریم کورٹ سے رجوع کر رہی تھی آج اسی حکومت کو ختم کرنے کیلئے کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اہل سیاست اپنے مفادات کی تکمیل کے بعد بھی مقبول ٹھہرتے ہیں تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عوام میں اس درجے کے شعور کا فقدان ہے جس سے اہل سیاست فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں، یاد رکھیں جب تک عوام میں شعوری بلندی نہیں آئے گی ہم ہر میدان میں دنیا سے پیچھے رہیں گے۔

مزید پڑھیں:  ضمنی انتخابات کے نتائج