ملک کے وسیع تر مفاد میں مذاکرات کئے جائیں

اتحادی جماعتوں نے عمران خان کی جانب سے مشروط مذاکرات کی پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان بغیر دھمکی اور شرط کے بات کریں تو مذاکرات ہو سکتے ہیں، دوسری طرف عمران خان نے کہا ہے کہ اتحادی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات نہیں ہو سکتے، اسی ماہ اسمبلیاں توڑ دیںگے، کیونکہ انتخابات ہماری نہیں بلکہ پاکستان کی ضرورت ہیں۔حکومت و اپوزیشن میں ہر فریق اس بات پر مُصر ہے کہ مذاکرات ان کی ضرورت و خواہش نہیں ہے، لہٰذا جن کی ضرورت ہے وہ مذاکرات کی پیشکش کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک کے سیاسی و معاشی حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ سیاسی جماعتیں ملک کے وسیع تر مفاد کے تحت مسائل کو باہم مل بیٹھ کر حل کرنے کی کوشش کریں، سیاسی جماعتیں ملک و قوم کو مزید امتحان و ابتلا میں نہ ڈالیں، سیاسی جماعتیں مگر لچک کا مظاہرہ کرنے کیلئے آمادہ دکھائی نہیں دیتی ہیں کیونکہ اپنی انا کے سامنے جھکنے کیلئے کوئی تیار نہیں ہے، غور طلب امر یہ ہے کہ جب مذاکرات نہیں ہوں گے تو معاملات کیسے حل ہوں گے؟ گزشتہ10ماہ کے دوران کون سا آپشن ہے جو سیاسی جماعتوں نے انہیں آزمایا ہے؟
وفاق میں تحریک عدم اعتماد لائی گئی، نتیجے میں وزیر اعظم کی رخصت ہو گئے، پنجاب میں تحریک عدم اعتماد لائی گئی، نتیجے میں وزیر اعلیٰ رخصت ہوئے، اب دوبارہ عدم اعتماد کی تیاریاں ہیں، جو دوبادہ سیاسی و آئینی بحران کا باعث بن سکتی ہے۔ پچھلے دنوں یہ تمام آپشنز آزمائے جا چکے ہیں، اور حالات اس بات پر شاہد ہیں کہ ان سے کچھ حاصل وصول نہیں ہوا ہے، سوائے ملک کی تباہی کے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اہل سیاست قوم کو مزید کسی ابتلاء میں نہ ڈالیں اور عوام کے مفاد کو سامنے رکھ کر با مقصد مذاکرات کریں تاکہ ہیجانی کیفیت کا خاتمہ ہو، اس وقت صورتحال یہ ہے کہ مذاکرات تو درکنار اہل سیاست آپس میں مل بیٹھنے کیلئے تیار نہیں ہیں، جو شکوے شکایات دور بیٹھ کر کئے جا رہے ہیں اگر مذاکرات میں یہی گلے شکوے کئے جائیں تو نتیجہ خیز ثابت ہو سکتے ہیں۔
خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے واقعات
خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع بالخصوص اور دیگر علاقوں میں گزشتہ چند ماہ سے عسکریت پسندوں کی کارروائیوں میں اضافہ ہو چکا ہے، ان کارروائیوں میں خاص طور پر پولیس اہلکاروں کو باقاعدہ ٹارگٹ کیا جا رہا ہے، نوشہرہ کے علاقے اکوڑہ خٹک میں جی ٹی روڈ پر پولیس موبائل وین پر حملہ کر کے تین پولیس اہلکار شہید کر دیئے گئے، نامعلوم حملہ آوروں نے پولیس وین کو اس وقت نشانہ بنایا جب اہلکار معمول کی گشت پر مامور تھے۔
خیبر پختونخوا میں عسکریت پسندی کا راستہ روکنے کے لیے ماضی میں آپریشن ضرب عضب اور ردالفساد ہو چکے ہیں، کچھ عرصہ تک تو صوبے میں امن برقرار رہا، تاہم اب پھر تواتر کے ساتھ بدامنی کے واقعات رونما ہو رہے ہیں، کالعدم تحریک طالبان پاکستان ان واقعات کی ذمہ داری قبول کر رہی ہے، ایسے شواہد بھی موجود ہیں کہ عوامی نمائندے عسکریت پسندوں کو بھتہ دینے پر مجبور ہیں، جب پولیس اہلکار اور عوامی نمائندے خود محفوظ نہیں ہوں گے تو عوام کو تحفظ کون فراہم کرے گا؟ یوں محسوس ہوتا ہے کہ صوبائی حکومت عسکریت پسندی کی حالیہ لہر پر قابو پانے سے قاصر ہے، ایسی صورت حال میں وفاق کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عوام کو حالات کے رحم و کرم پر نہ چھوڑے، اس مسئلے کا فوری اور تسلی بخش حل نکالا جانا چاہئے۔ ریاست انتہائی اقدام اٹھانے کی بجائے افغان طالبان سے توقع رکھتی ہے کہ وہ ٹی ٹی پی پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے انہیں مذاکرات کی میز پر لائیں، اس ضمن میں علماء کرام کا وفد افغانستان بھیجا گیا مگر مذاکرات کی کوششیں بظاہر ثمر آور دکھائی نہیں دیتی ہیں، حقیقت تو یہ ہے کہ افغان طالبان کو اپنے ملک میں دہشت گردی کے چیلنج کا سامنا ہے، انہیں سفارت کاروں کو تحفظ فراہم کرنے میں مشکلات درپیش ہیں، پاکستانی سفارت کار پر حملہ اس کا واضح ثبوت ہے، ایسے حالات میں پاکستان کو خود اس مسئلے کا حل نکالنا ہوگا تاکہ شرپسندوں کو مضبوط ہونے کا موقع نہ مل سکے۔
بچوں کی تعلیم ریاستی توجہ کی متقاضی
صوبائی اسمبلی میں ایک رکن نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی طرف سے کرائے گئے ایک سروے کا حوالہ دیتے ہوئے نشاندہی کی ہے کہ قبائلی اضلاع میں 10 لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں جو ایک تشویش ناک تعداد ہے، رکن صوبائی اسمبلی میر کلام وزیرکی طر ف سے قبائلی اضلاع میں شرح خواندگی اور تعلیمی صورت حال سے متعلق تحریک التواء جمع کرائی گئی جو بحث کے لیے منظور کر لی گئی ہے۔
2017ء کی مردم شماری کے مطابق قبائلی علاقہ جات کی مجموعی آبادی 50 لاکھ سے زائد ہے، 50 لاکھ کی مجموعی آبادی میں سے 10 لاکھ بچوں کا سکولوں سے باہر ہونا یقیناً بہت بڑی تعداد اور انتہائی افسوسناک امر ہے، اتنی زیادہ تعداد میں بچوں کا تعلیم سے محروم رہنا نہ صرف علاقے کی ترقی کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ اس کے مجموعی منفی اثرات ملکی معیشت پر مرتب ہوں گے، تعلیم سے محروم رہ جانے والے بچے سماج میں پیچھے رہ جاتے ہیں، ایسے بچوں سے جبری مشقت کرائی جاتی ہے اور سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ ایسے بچے عسکریت پسندوں کا آسان ہدف ہوتے ہیں جن کی وہ ذہن سازی کر کے تخریبی کارروائیوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
ہر بچے کو تعلیم دینا ریاست کی ذمہ داری ہے، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ملکی ترقی کے لیے شرح خواندگی بڑھانا اشد ضروری ہے، چنانچہ ریاست کو بہتر مستقبل کے لیے اپنی اس ذمہ داری پر سمجھوتہ نہیں کرنا چاہئے، نہ صرف قبائلی علاقہ جات بلکہ ملکی سطح پر یہ یقینی بنایا جائے کہ کوئی بچہ تعلیم سے محروم نہ رہ جائے۔

مزید پڑھیں:  بھارت کا مستقبل امریکہ کی نظر میں