درست سمت کا تعین

آرمی چیف کی جانب سے کمان کی چھڑی سنبھالنے کے بعد لائن آف کنٹرول کا دورہ ان کی ترجیحات کوسمجھنے کے لئے کافی ہے قبل ازیں روایت یہ رہی ہے کہ پاکستان میں عام طورپر سیاسی اور عسکری شخصیات کی طرف سے اپنا منصب سنبھالنے کے بعد زیادہ ترپہلے دورہ پر سعودی عرب یا پھر کسی اورملک کا دورہ کرتے رہے ہیں۔ ان کا ایل او سی کا دورہ مستقبل کی پیش گوئی کررہا ہے کہ ملک کی مغربی اور مشرقی سرحدات کو مضبوط کرنے اور دہشت گردوں کے خلاف بے دھڑک کارروائی کرنا ہی ان کے پیش نظر ہوگاچونکہ ملک میں اندرونی طورپر سکیورٹی کی صورتحال معمول پر نہیں اور آئے روز سکیورٹی فورسزپر حملے ہورہے ہیں ان حالات میں فوجی سربراہ صرف اندرونی خلفشارپر کنٹرول کیلئے اقدامات پر توجہ مرکوز رکھنا ہی حالات کاتقاضا اور آرمی سربراہ کی ذمہ داری بنتی ہے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ جنرل عاصم منیر کی سربراہی میں پاک فوج میں ایک نئی تبدیلی کا امکان ہے جس سے فوج اور عوام کے درمیان اعتماد کی فضابھی معمول پر آجائے گی۔جنرل عاصم منیر کے اقدامات سے لگتاہے کہ آئندہ کے لئے فوج میں تقرر’تبادلے’ترقیوں کی تشہیربھی کنٹرول کی جائے گی تاکہ افسران پربحث روکی جاسکے۔پاک فوج میںتبادلے ہوں یاپھر دیگر معاملات یہاں تک کہ آرمی چیف کبھی کبھار ہی نہایت ضروری ملک کی دفاعی اور سکیورٹی کے معاملات پر ہی بات کرتے آئے ہیں جب تک یہ روایت رہی میڈیا میں فوج کے حوالے سے سنجیدگی طاری رہی لیکن جب سے میڈیا کا سہارا لیا جانے لگا توپھر آہستہ آہستہ میڈیا کی جانب سے بھی اظہار خیال کرنے کاسلسلہ شروع ہوا عرصہ قبل تو یہ عروج پر تھا جواچھے اور مثبت تاثرات کا حامل نہ تھا اس پالیسی کی تبدیلی کا عندیہ کمان کی چھڑی سنبھالنے کے موقع پر نئے آرمی چیف کامیڈیا سے بات کرنے سے گریز کی صورت میں سامنے آیا جس کے بعد عسکری ادارے اورمیڈیا دونوں کی اپنی اپنی جگہ واپسی اور خاطر جمع رکھنے کے عمل کی طرف واپسی فطری امر ہو گا۔
زرعی اراضی اور باغات کے تحفظ کی ضرورت
سوات قومی جرگہ کے اعلامیے میں جہاںسوات موٹر وے فیز ٹو کو خوش آئند قرار دیاگیا ہے لیکن وہاں یہ بھی واضح کیاگیا ہے کہ ایک اچھے منصوبے کے لئے زرعی زمینوں’ باغات اور گھروں کا خاتمہ کسی صورت قبول نہیں۔ جرگہ نے مطالبہ کیا ہے کہ سوات موٹر وے فیز ٹو کو دریائے سوات کے کنارے بنجر زمینوں پر تعمیر کیا جائے ۔ کیوں کہ سوات میں زرعی زمینیں کم ہیں ، اس لیے زرعی زمینوں اور باغات پر موٹروے کو تعمیر نہیں ہونے دیا جائے گا ۔سوات قومی جرگہ کی جانب سے سوات ایکسپریس وے کے حوالے سے جن تحفظات کااظہار کیا گیا ہے وہ حکومت کی پالیسی کی عین تشریح اور تقاضا ہے جس کا حکومت کو مطالبے سے قبل ہی خیال رکھنے کی ضرورت تھی اگر کسی وجہ سے سرکاری عہدیدار خود ہی حکومتی پالیسی سے انحراف کر رہے تھے تواس کی اصلاح ہونی چاہئے ۔ اس بارے دو روائے نہیں کہ سڑک کی تعمیر نہایت احسن اور ضروری ہے لیکن سڑک کی تعمیر کے لئے اراضی اور باغات کو متاثر نہ ہونے دیا جائے بلکہ متبادل اور غیر آباد علاقوں سے سڑک گزاری جائے تاکہ جہاں زرعی اراضی اور باغات محفوظ ہوں وہاں غیرآباد علاقے بھی ترقی کی دوڑ میں شامل ہوں اورعوام کو زیادہ سے زیادہ سہولت اور فوائد حاصل ہوں۔
شیر فروشوں کی من مانی’ انتظامیہ بے بس
پشاور کی ضلعی انتظامیہ کی جانب سے شیر فروشوں کو من مانی کرنے کی کھلی چھٹی کوئی نئی بات نہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ضلعی انتظامیہ ہی ان کی سرپرستی کرتی ہے اور اس کا روبار میں بھی اہم شخصیات شامل ہیں جس کے باعث ان کے خلاف کارروائی نہیں ہو پاتی اخباری اطلاعات کے مطابق دودھ کی فی لیٹر قیمت 180 روپے جبکہ دہی کی قیمت 190 روپے وصول کی جارہی ہے جبکہ ضلعی انتظامیہ نے آنکھیںموندلی ہیںیونیورسٹی ٹائون اورحیات آباد میں خاص طور پر ا ضافی نرخ وصول کرنے کا سلسلہ جاری ہے یہ امرمضحکہ خیز ہے کہ سرکاری طور پر دودھ کی فی لیٹر قیمت 130روپے مقرر ہے اسی طرح دہی کی سرکاری قیمت 140روپے کلو ہے تاہم دہی کی قیمت 190روپے وصول کی جا رہی ہے پشاور میں شیر فروش ہر دو ماہ بعد قیمت میں 10روپے اضافہ کر دیتے ہیں ضلعی انتظامیہ دودھ اور دہی کی قیمت کنٹرول کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے۔جاری صورتحال میں یہ باور کرانا ہی مشکل ہے کہ صوبے میں حکومتی عملداری اور خاص طور پر انتظامیہ وجود رکھتی ہے شہریوں کو جس طرح ان عناصر کے رحم و کرم پر چھوڑا گیا ہے ایسے میں شہری کس سے فریاد کریں اور کس سے منصفی چاہیں۔توقع کی جانی چاہئے کہ اس اندھیر نگری کا حکومتی سطح پر نوٹس لیا جائے گا اور دودھ فروشوں کا نہ صرف قبلہ درست کیا جائے گا بلکہ آئندہ کے لئے ان کو مقررہ نرخوں کا پابند بنانے کے لئے بھی کوئی لائحہ عمل وضع کیا جائے گا اور اس پر عملدرآمد یقینی بنائی جائے گی۔

مزید پڑھیں:  نشستن و گفتن و برخاستن