دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا

اپنے صاحبزادے مونس الٰہی کے جنرل( ر) قمر جاوید باجوہ سے متعلق بیان کے بعد اب وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کی جانب سے بھی اس کی تصدیق سے سیاست میں عدم مداخلت کامعاملہ الگ لیکن اس سے یہ بات بہرحال واضح ہے کہ گزشتہ اورسابقہ حکومتوں کی تشکیل اور حکومت سازی کس طرح سے ہوتی آئی ہیں ادارے نیوٹرل ہونے کے باوجود انفرادی طور پر جوکردارادا کیاگیا یہ یقینا قابل مواخذہ امر ہے جس سے قطع نظرپرویز الٰہی نے اعتراف کیا کہ انہیں جنرل باجوہ نے کہا تھا آپ کا اور آپ کے دوستوں کا عمران خان والا راستہ بہتر ہے۔دریںاثناء ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے کہنے پر پنجاب اسمبلی توڑنے کو تیار ہیں لیکن مارچ تک انتظار کرنے کا مشورہ دیا ہے۔دریںاثناء چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے سابق آرمی چیف جنرل ( ر) قمر جاوید باجوہ پرڈبل گیم کاالزام عائد کرتے ہوئے ان کی مدت ملازمت میں توسیع کو اپنی غلطی قراردیاہے۔واضح رہے کہ عمران خان اس سے قبل اپنے بیشتر اقدامات کا کامیابی سے دفاع کرنے کے بعد انہیں اپنی غلطیاں گردان چکے ہیں ۔2018کے عام انتخابات کے بعد معلق پارلیمان میں آزاد ارکان ملا کر اتحاد یوں کے ساتھ حکومت بنانے کے بعد عمران خان اس فیصلے کا دفاع کرتے نظر آئے تاہم بعد میں کمزور حکومت لینے کو اپنی غلطی کہا ۔ عمران خان اپنی حکومت میں خود کو سب سے طاقت ور قرار دیتے ہوئے اپنے ہر فیصلے کا دفاع کرتے رہے تاہم کرسی سے اتر نے کے بعد عمران خان نے خود کو کمزور وزیر اعظم گردانا اور فیصلوں کو اپنی غلطی قرار دیا۔ عمران خان نے چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کو پہلے بہتر ین اور بعد ازاں بدترین کہہ دیا ۔ عمران خان نے سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باوجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع میں آنے والی ہر رکاوٹ دور کی حتیٰ کہ کرسی سے اترنے کے بعد عام انتخابات جنرل باجوہ ہی کی موجودگی میں کروانے کا بھی مطالبہ کیا تاہم جنرل باجوہ کے ریٹائر ہونے کے محض 4روز بعد انہوں نے جنرل باوجوہ پر ڈبل گیم جیسے الزامات عائد کرتے ہوئے ان کی توسیع کو بھی اپنی سب سے بڑی غلطی قرار دیا ۔ اسی طرح عمران خان نے عام انتخابات کے لئے حکومت کو مذاکرات کی دعوت دی تاہم اب اسے بھی غلطی کہہ کر دسمبر ہی میں پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ چیئرمین تحریک انصاف جب بھی کسی فیصلے کا دفاع کرتے ہیں بعد ازاں اسی کو غلطی کہہ کر آگے بڑھنے کی روش اختیار کئے ہوئے ہیں۔دوسری جانب وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے غیر متوقع طور پر مذاکرات کرنے اور معاملہ بگڑنے کی بجائے بہتری کی طرف لانے کا بیان دیاگیا ہے ۔اگرچہ عندیہ تو دیا جارہا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ تحریک انصاف کو اتحادی جماعت کی طرف سے پنجاب میں صوبائی اسمبلی کی تحلیل مارچ میں کرنے کامشورہ دیناسیاسی طور پرعدم اتفاق کاعندیہ بھی دیا ہے جبکہ خیبر پختونخوا کے بعض مقتدر رہنما بھی اسمبلی تحلیل کرنے کے حق میں نہیں اس کی وجوہات اور عوامل کوسمجھنا مشکل نہیں تحریک انصاف کی سیاست اور فیصلوں کو سمجھنا اس لئے مشکل کام ہے کہ یہاں پر فیصلے اور اعلان پہلے ہوتے ہیں اور پھر بعدازاں باقی معاملات پر غور و خوض ہوتا ہے علاوہ ازیں اطلاعات اور فیصلوں پر عملدرآمد کی بجائے ان کو لٹکائے رکھنے کا وتیرہ بھی کوئی پوشیدہ امر نہیں جس سے قطع نظر مونس الٰہی کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب نے بھی صوبے کے معاملات میں انفرادی حیثیت سے مداخلت کااعتراف نہ صرف پنجاب حکومت بلکہ ضمنی انتخابات کے نتائج کو بھی مشکوک بنانے کے لئے کافی ہے ساتھ ہی ساتھ اس سے بڑھ کر یہ ہمارے سیاستدانوں اور حکومت لینے اور چلانے والوں سبھی کا چہرہ عیاں کرنے کے لئے بھی کافی ہے کہ وہ ملک و قوم اور عوام سے کس حد تک مخلص جمہوری اور جمہوریت پر یقین رکھنے والے ہیں اور شخصیات کے گردان کی سیاست کس طرح گھومتی ہے بہرحال اس امرکا ببانگ دہل اعتراف اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ ضرور ہے ۔ ایسے میں تحریک انصاف کے قائد کا ریٹائرڈ جنرل باجوہ پر ڈبل گیم کرنے کا الزام بھی بباطن مداخلت قبول کرنے اور مداخلت کاروں کے اشارے پر چلنے کااعتراف ہے البتہ ان کا اعتراف بھی اعلیٰ ظرفی کے زمرے میں اس لئے شمار ہو گا کہ بالآخر انہوں نے اپنی غلطی کااعتراف کرلیا ہے مگر ناکامیوں کا طوق بہرحال اتار کر کسی اور کومورد الزام ٹھہرانے کو بعد از وقت قبول اور احسن نہیں گردانا جا سکتا ایسے میں آئندہ محتاط رہنے اور مزید کسی غلطی سے گریز ہی عملی طور پر اعتراف حقیقت ہو گی جسے اختیار کیا جانا چاہئے خوش آئند امر یہ ہے کہ اب بطور ادارہ سیاست میں مداخلت سے نہ صرف فروری 2021ء کے فیصلے کے تحت پرہیز کی روش اختیار کی گئی ہے بلکہ اس پرعمل پیرا ہونا قابل اطمینان امر ہے جس کے بعد توقع کی جانی چاہئے کہ اب ملک میں سیاست سیاسی طریقوں سے اور حصول اقتدار جمہور کے فیصلوں سے ہو سکے گی اب یہ سیاستدانوں پر منحصر ہے کہ وہ خود کوکس حد تک مدبر اور سیاستدان ثابت کرتے ہیںان تمام عوامل اور مراحل سے گزرنے کے بعد اس امر کی ضرورت مزید بڑھ گئی ہے کہ سیاستدان اپنے معاملات میں کسی کو مخل ہونے دیئے بغیر اور بیساکھیوں کی تلاش کئے بغیر خود ہی طے کریں اس کا احسن راستہ مذاکرات ہی ہیں اور اسی کے ذریعے راستہ نکالا بھی جا سکتا ہے ۔ غلطیوں کے ازالے کا تقاضا ہے کہ نہ صرف وہ غلطیاں نہ دہرائی جائیں بلکہ غلطیوں کے ازالے کی سعی بھی ہونی چاہئے ۔

مزید پڑھیں:  اہم منصوبے پرکام کی بندش