معیشت اور سیاست

ایک جانب عمران خان نے اسمبلیاں توڑنے کا اعلان کر رکھا ہے تو دوسری طرف وفاقی حکومت نے بھی عمران خان کے اس اعلان پر جوابی حکمت عملی اپنا لی ہے اور کہا ہے کہ وہ عمران خان کی جانب سے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں توڑنے کے باوجود عام انتخابات وقت پر ہی کرائیں گے اگر اسمبلیاں توڑ بھی دی گئیں تو وہ پریشان نہیں ہوں گے۔ ایک تو سیاست میں یہ ہلچل جاری ہے دیکھتے ہیں کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے لیکن ایک ہلچل جو ہے وہ معیشت کے میدان میں مچی ہوئی ہے جو سب سے اہم ہے کیوں کہ اس وقت سیاست سے بھی کوئی چیز اہم تر ہے تو وہ پاکستان کے عوام کے لیے روز مرہ کی اشیاء خریدنا، گھر کا چولہا جلانا ہے کیوں کہ معیشت مستحکم ہو گی تو سیاست بھی ہو گی اور اگر معیشت ہی مضبوط نہ ہوئی تو پھر سیاست بھی ڈانواں ڈول ہی رہے گی یہ ایک حقیقت ہے جس سے صرف نظر کرنا کسی بھی سیاسی جماعت یا حکومت کے لئے ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ لوگوں نے پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کو اس لئے خوش آمدید کہا تھا کہ عمران خان سے معیشت سنبھالی نہیں جا رہی تھی جس کی وجہ سے لوگ مشکلات کا شکار تھے اور لوگ چاہتے تھے کہ حکومت کی تبدیلی ہو تا کہ انہیں معاشی میدان میں کوئی خوشی مل سکے، اب موجودہ حکومت کو بھی سات ماہ سے زائد ہو چکے ہیں معیشت موجودہ حکومت کے لیے بھی درد سر بنتی جا رہی ہے کیوں کہ معاشی حالات کی وجہ سے موجودہ حکومت ضمنی انتخابات میں پے در پے شکستوں سے دوچار ہو رہی ہے اگر معاشی حالات درست نہ ہوئے تو موجودہ حکومتی اتحاد کے لئے بھی عوامی اکھاڑے میں اترنا اور الیکشن جیتنا ایک خواب بن جائے گا کیونکہ جس طرح عمران خان انہیں معاشی حالات کی وجہ سے لتاڑ رہے ہیں اس کا ان کے پاس کوئی توڑ ہے ہی نہیں۔ جب موجودہ حکومت عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وجود میں آئی تھی تو اس حکومت کا یہ نعرہ تھا کہ وہ عوام کو معاشی مشکلات سے نجات دلانے کے لئے اقتدار میں آئے ہیں لیکن عوام کو یوں محسوس ہو رہا ہے کہ وہ مزید معاشی دلدل میں پھنستے جا رہے ہیں کہ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں عوام کی پہنچ سے باہر ہوتی جا رہی ہیں، ڈالر کو پر لگے ہوئے ہیں، چینی، چاول آٹا، پیٹرول الغرض کسی بھی چیز کا نام لے لیں وہ عوام کی پہنچ سے دن بدن دور ہوتی جا رہی ہے، کیونکہ عوام کی آمدنی بڑھ نہیں رہی لیکن چیزوں کی قیمتیں ہیں کہ وہ روزبروز بڑھ رہی ہیں۔
وفاقی ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق نومبر کے دوران مہنگائی کی شرح 23.8 فیصد ریکارڈ کی گئی، جب کہ گزشتہ سال نومبر میں افراط زر کی شرح 11.5 فیصد تھی۔ ادارہ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق دیہی علاقوں میں افراط زر کی شرح 27.2 فیصد تک پہنچ گئی ہے اور شہروں میں یہ شرح 21.6 فیصد ریکارڈ ہوئی۔ ادارہ شماریات کے مطابق ماہانہ بنیاد پر پیاز، ٹماٹر، خشک میوہ جات اور انڈے مہنگے ہوئے،اس کے علاوہ چینی، خشک دودھ، چائے کی پتی اور مچھلی کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا۔ وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق ایک سال کے دوران دیہی علاقوں میں پیاز 286 فیصد مہنگا ہوا اور شہری علاقوں میں پیازکی قیمت 285 فیصد بڑھی۔ اعداد و شمار کے مطابق ایک سال میں دیہی علاقوں میں دال ماش 50.78 فیصد اور شہری علاقوں میں 47.76 فیصد مہنگی ہوئی،اس دوران دیہی علاقوں میں گندم 47.16 فیصد اور شہری علاقوں میں 43.4 فیصد مہنگی ہوئی۔ ادارہ شماریات کے اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ ایک سال میں چاول، دال مونگ، مسٹرڈ آئل، کوکنگ آئل، گھی بھی مہنگا ہوا، اور ایک سال میں کھانے پینے کی اشیاء 31 فیصد مہنگی ہوئیں۔ یہ اعدادو شمار بتا رہے ہیں کہ اس وقت ملک میں عام آدمی کس کرب سے گزر رہا ہے کیونکہ عام آدمی کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ تحریک انصاف اور پی ڈی ایم کی رسہ کشی کا انجام کیا ہوتا ہے۔
حکومت عام انتخابات اس سال ہی کرائے گی یا اس کے لئے مزید انتظار کرنا پڑے گا، تحریک انصاف کی حکومت پنجاب اور کے پی کے کی اسمبلیاں توڑتی ہے یا یہ صرف سیاسی سٹنٹ ہے، نواز شریف واپس آئیں گے یا لند ن سے ہی بیٹھ کر سیاسی سرگرمیاں سرانجام دیں گے، عمران خان نے گھڑی بیچی ہے یا ان کے پاس ہے، کون سا سیاسی رہنما کس سیاسی پارٹی کا ساتھ دے گا یہ سب باتیں عوام کے لئے بے معنی ہیں کیوں کہ اگر گھر کا چولہا نہیں جلے گا تو نعرے بھی نہیں لگیں گے۔ اس لئے حکمرانوں کو سوچنا ہو گا کہ عوام کو کیسے ریلیف دینا ہے۔ اگر موجودہ حکومت نے مہنگائی پر قابو پا لیا اور معیشت کو درست سمت گامزن کرلیا تو پھر عوام کی دلچسپی بھی عمران خان کی تحریک سے ختم ہو جائے گی کیوں کہ لوگ تو یہ چاہتے ہیں کہ انہیں دو قت کی روٹی ارزاں نرخوں پر ملتی رہے چاہے یہ روٹی انہیں عمران خان کے ذریعے ملے یا پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت اس میں آسانی پیدا کریانہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں ہے۔

مزید پڑھیں:  اپنے جوتوں سے رہیں سارے نمازی ہو شیار