دہشت گردی کے خاتمے کا عزم

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے اس مؤقف کا اعادہ کیا ہے کہ قوم کی حمایت سے دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رہے گی یہ کہ امن و امان خراب کرنے والوں کیلئے کوئی جگہ نہیں۔ انہوں نے انسداد دہشت گردی کی جنگ میں پچھلے چند برسوں کے دوران عوام اور سکیورٹی فورسز کی قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان قربانیوں کی وجہ سے ہی ریاست کی رٹ قائم ہوئی۔ گزشتہ روز خیبر ایجنسی کے ضلع تیراہ کے دورہ کے دوران انہوں نے مقامی شہریوں، عمائدین اور جوانوں سے بھی ملاقاتیں کیں۔ اس امر پر دو آراء ہرگز نہیں کہ پچھلی دو اڑھائی دہائیوں کے دوران پاکستانی عوام اور سکیورٹی فورسز نے دہشت گردی کے خاتمے کی جدوجہد میں بے پناہ قربانیاں دیں اس عرصہ کے دوران دہشت گردوں نے ملک کے بعض اہم سیاستدانوں، معروف علمائ، دانشوروں اور دیگر شخصیات کو نشانہ بنایا۔ خیبر پختونخوا میں اے این پی کے سینکڑوں کارکن اور رہنما دہشت گردوں کی کارروائیوں میں شہید ہوئے۔ دسمبر 2007ء میں لیاقت باغ کے باہر شہید ہونے والی سابق وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کی ذمہ داری بھی اس وقت کی حکومت نے دہشت گردوں پر ڈالی۔ 2013ء کے عام انتخابات سے قبل کالعدم ٹی ٹی پی نے پاکستان پیپلزپارٹی، اے این پی اور ایم کیو ایم کو انتخابی سرگرمیوں میں حصہ نہ لینے کے لئے کہا نیز یہ کہ اگر ان جماعتوں نے ہدایت پر عمل نہ کیا تو ان کے خلاف کارروائی کرنے کی دھمکی بھی دی گئی۔ 29 نومبر کو ریٹائر ہونے والے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ایک مرحلہ پر ملک میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی اور دہشت گردی کو افغان پالیسی کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ40 سال کی افغان پالیسی کا ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے اس سے ملک کو بہت نقصان ہوا۔ افسوس کہ اس اعتراف کے باوجود افغان پالیسی کا ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت کو نہ صرف نظرانداز کیا گیا بلکہ گزشتہ برس افغانستان میں طالبان کی واپسی کو ہماری بعض حکومتی شخصیات نے امریکہ کی شکست اور طالبان کی فتح سے تعبیر کیا جس پر مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ دہشت گردوں کے ساتھ عوام کے تعاون اور ریاستی قوت سے نمٹنے کی قریب ترین مثال سری لنکا ہے جس نے تامل ٹائیگرز کے خلاف چند برس قبل عوام کے تعاون سے فتح حاصل کی یہ فتح اپنائی گئی پالیسی پر مستقل مزاجی کے ساتھ عمل پر ہی ممکن ہو پائی۔ ان دنوں ہمارے ہاں بعض شخصیات نے یہ دعویٰ کیا کہ تامل ٹائیگرز کے خلاف سری لنکن حکومت کی کامیابی پاکستان کے تعاون سے ممکن ہوئی تبھی یہ سوال اٹھایا گیا کہ جس تعاون سے سری لنکن حکومت نے دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ جیت لی وہ ہمارے یہاں عملی صورت کیوں نہ لے سکی؟ مندرجہ بالا نکات کی طرف متوجہ کرنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ پچھلے کچھ عرصہ سے وطن عزیز کے دو صوبوں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کی وارداتوں کا نیا سلسلہ شروع ہوگیا ہے صرف خیبر پختونخوا میں رواں سال کے دوران دہشت گردی کی تین سو سے زائد وارداتوں میں ڈیڑھ سو سے زیادہ پولیس اہلکار اور سکیورٹی فورسز کے درجنوں افسر و جوان شہید ہوئے۔ ان وارداتوں میں بڑی تعداد میں شہریوں نے بھی جام شہادت نوش کیا۔ دہشت گردوں نے اسی عرصہ کے دوران خیبر پختونخوا کے متعدد وزراء اور دیگر شخصیات کو بھتہ کے لئے پرچیاں بھیجیں۔ کہا جا رہا ہے کہ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ محمود خان کے خاندان نے مجموعی طور پر سات کروڑ روپے بھتہ ادا کیا۔
دہشت گردی اور بھتہ خوری کے معاملات سے بنی فضا میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا امن و انسانیت کے دشمنوں کے خلاف جنگ جاری رکھنے کے لئے عزم صمیم نہ صرف خوش آئند ہے بلکہ اس سے دہشت گردی کے دوران متاثر ہوئے خاندانوں کو یہ امید بھی بندھی ہے کہ ان کے پیاروں کے قاتلوں سے کسی قسم کی کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی بلکہ حکومتی سطح پر اس امر کی بھی کسی تاخیر کے بغیر وضاحت کی جائے گی کہ سابق حکومت کی دہشت گردوں سے مذاکرات کی پالیسی اس کے بھی پیش نظر ہے یا اس میں تبدیلی آئی ہے؟ یہ امر بہر طور دوچند ہے کہ عوام کا بڑا اکثریتی حصہ دہشت گردوں سے کسی بھی قسم کے مذاکرات کو شہداء کے خون کی توہین کے مترادف قرار دیتا ہے دوسری طرف گزشتہ سال اکتوبر میں شروع ہونے والے کابل مذاکرات کے دوران کالعدم ٹی ٹی پی کے6 نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ کا دوسرا اور تیسرا نکتہ کسی اگر مگر کے بغیر وضاحت طلب ہے۔ حکومت عوام کو بتائے کہ کیا وہ دہشت گردوں کے خلاف جاری جنگ میں مارے گئے دہشت گردوں کا معاوضہ ادا کرنے اور سابق قبائلی علاقوں کو کالعدم ٹی ٹی پی کی عملداری میں دینے کا ارادہ رکھتی ہے؟ یہ وضاحت اس لئے بھی ضروری ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے ترجمان کی جانب سے حالیہ عرصہ میں جاری کئے جانے والے چند بیانات سے یہ تاثر قائم ہوا ہے کہ جیسے سابق حکومت نے ان دو مطالبات کو تسلیم کرنے کا عندیہ دیا تھا اور حکومت کی تبدیلی کے بعد معاملات آگے نہ بڑھنے کی وجہ سے ٹی ٹی پی نے جنگ بندی ختم کرکے کارروائیاں دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اندریں حالات نہ صرف حکومتی پالیسی کی وضاحت ضروری ہے بلکہ اس امر کی بھی کہ چند دن قبل نیشنل ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عمل کرنے کے حوالے سے جس فیصلے کا اعلان کیا گیا تھا اس پر اب تک کتنا عمل ہوا، یہاں یہ امر پیش نظر رکھنا ہوگا کہ ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں نے پچھلے ایک ماہ کے دوران خیبر پختونخوا میں50 سے زائد کارروائیاں کیں اور بلوچستان میں بھی متعدد وارداتیں۔ یہ بجا ہے کہ اس عرصہ میں پولیس اور سکیورٹی فورسز نے ھی دونوں صوبوں میں دہشت گردوں کے خلاف کامیاب کارروائیاں کیں مگر ٹی ٹی پی کی جانب سے اعلان جنگ کے بعد ہماری حکمت عملی واضح ہونی چاہیے۔ آرمی چیف کے گزشتہ روز کے بیان کے بعد تو وضاحت اور مستقبل کے حوالے سے پالیسی کا دوٹوک اعلان کیا جانا چاہیے تاکہ عوام ا لناس یہ جان پائیں کہ ارباب حکومت و سیاست اس حوالے سے کیا سوچ رہے ہیں۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا یہ کہنا بجا طور پر درست ہے کہ دہشت گرد کسی رعایت کے مستحق نہیں۔ ہماری دانست میں صرف دہشت گرد ہی نہیں بلکہ ان کے مقامی سہولت کار اور معاونین کی بھی کسی رعایت کے مستحق نہیں۔ امید واثق ہے کہ حکومت کسی تاخیر کے بغیر انسداد دہشت گردی کے حوالے سے جامع پالیسی کا اعلان کرے گی۔

مزید پڑھیں:  ڈیٹا چوری اور نادرا؟