عہد وسطیٰ کی یورپی جامعات

عہد وسطیٰ میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے جامعات کا قیام عمل میں آیا۔ ساتویں اور آٹھویں صدیوں تک یورپ فیوڈل ازم کی روایات میں جکڑا ہوا تھا۔ لیکن جب یہ زنجیریں ٹوٹنی شروع ہوئیں تو گیارہویں اور بارہویں صدیوں میں یورپ ایک نئی شکل میں ابھرا۔ سیاسی طور پر یورپ میں استحکام پیدا ہوا اور زرعی پیداوار کی وجہ سے معاشی خوشحالی آئی۔ اس کے نتیجے میں آبادی میں اضافہ ہوا اور نئے شہر وجود میں آئے۔ تجارتی سرگرمیاں بڑھیں اور معاش کی تلاش میں لوگ ایک سے دوسری جگہ جانے لگے جس کا اثر بول چال کی زبان اور کلچر پر ہوا۔
شہروں کے وجود کی وجہ سے یہ ممکن ہوا کہ یورپ میں جامعات کا قیام عمل میں آیا۔ یورپ کے نئے شہروں میں کاریگروں کی جماعتیں ہوا کرتی تھیں جو گلٹ کہلاتی تھیں، اس میں ماسٹر اپنے شاگردوں کو کاریگری سکھاتے تھے۔ اسی ماڈل پر یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا۔ اسے یونیورسٹا کہا جاتا تھا، جس کا مطلب تھا کہ اس میں اس وقت کے موجودہ علوم کی تعلیم دی جائے۔ نئی یونیورسٹیاں شہروں میں قائم ہوئیں جیسے پیرس اور اٹلی کے شہر پڈوا اور پیسا کی یونیورسٹیاں، جہاں طالبعلم ایک سے دوسری یونیورسٹی میں قابل اساتذہ کی تلاش میں جاتے تھے اور علم کے حصول کے لیے محنت کرتے تھے۔ اساتذہ کی کوئی تنخواہ مقرر نہ تھی اور طالبعلموں کی فیس کی وجہ سے وہ اپنا معاوضہ وصول کرتے تھے۔
جامعات جن میں پیرس، آکسفورڈ اور بولونیا شامل تھیں۔ ان میں مختلف علوم کی فیکلٹی تھیں جن میں آرٹ، طب، الہیات اور قانون اہم تھیں، جو طالبعلم تعلیم مکمل کر لیتے تھے۔ انہیں ایک سرٹیفکیٹ دیا جاتا تھا جو انہیں تدریس کا حق دیتا تھا۔ طالبعلموں کا سماجی درجہ معاشرے میں چرچ کے راہبوں کے برابر تھا۔ اس لیے عام لوگ ان کا ادب کرتے تھے۔ لڑائی جھگڑے کی صورت میں چرچ طالبعلموں کے مخالف فرد یا جماعت کو عیسائیت سے خارج کرنے کا حق رکھتی تھی۔ سول اتھارٹی ان پر مقدمہ نہیں چلا سکتی تھی۔ چرچ کے مذہبی ادارے ان کے مقدموں کا فیصلہ کرتے تھے۔
مختلف جامعات اپنی اہم فیکلٹی کی وجہ سے مشہور تھیں۔ جیسے قانون، طب اور الہیات اپنی تعلیم کی وسعت کے لحاظ سے سوسائٹی ان کی ضرورت مند ہو گئی تھی۔ کیونکہ سیاست، مذہب، ادب، آرٹ اور موسیقی ان سب کی تخلیق جامعات میں ہوتی تھی جو پوری سوسائٹی کے ذہن کو تبدیل کر دیتی تھی، ییرس یونیورسٹی میں فیکلٹی آف آرٹس کی اہمیت تھی۔ اگر کسی طالبعلم کو طب قانون میں ڈگری لینا ہوتی تھی تو پہلے اسے آرٹس میں داخلہ لینا ہوتا تھا۔ آرٹس فیکلٹی کے استاد کو وسیع اختیارات تھے، یونیورسٹی کی اہمیت کے پیش نظر تیرہویں صدی تک یورپ کے ہر شہر میں ریاست یا نجی ادارے کی وجہ سے یونیورسٹیاں قائم ہو گئی تھیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ طالبعلموں کی تعداد بھی بڑھ گئی تھی۔ ڈگری کے حصول تک طالب علم کو کئی مرحلوں سے گزرنا پڑتا تھا۔ ہر شعبے میں تعلیم کی تکمیل کے لیے خاص مدت تھی، جس کے لیے اسے سخت محنت کرنی پڑتی تھی، یونیورسٹی کے داخلے کے لیے سر ٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ داخلہ ملنے کے بعد ریکٹر طالب علم سے یہ عہد لیتا تھا کہ وہ یونیورسٹی کا وفادار ہو گا۔ یونیورسٹی کی فیس ادا کرے گا اور کسی انتقامی جذبے کا شکار نہیں ہو گا۔
یونیورسٹی میں دو قسم کے لیکچرز دیئے جاتے تھے۔ ایک آرڈینری لیکچر کہلاتا تھا جو صبح کے وقت دیا جاتا تھا۔ اس وقت اور کوئی دوسرا لیکچر نہیں دیا جاتا تھا۔ دوسرا ایکسٹرا آرڈینری لیکچر کہلاتا تھا جو دوپہر میں دیا جاتا تھا۔ اس میں طالبعلم اور اساتذہ شامل ہوتے تھے۔ آخر میں ان دونوں لیکچرز پر تبصرہ کیا جاتا تھا۔ کلاس روم میں استاد نصاب سے متعلق لیکچرز دیا کرتے تھے۔ طالب علم لیکچرز سن کر اس کے نوٹس بھی لیتے تھے۔ استاد لیکچرز کے دوران موضوع کے حوالے سے مزید وضاحت بھی کرتا تھا۔ لیکچر میں دو طریقے اختیار کیے جاتے تھے۔ ایک میں ارسطو اور دیگر فلسفیوں کے اقتباسات پیش کئے جاتے تھے، دوسرے لیکچر میں استاد ارسطو، ابن سینا اور دوسرے فلسفیوں کے اقتباسات سناتا تھا پھر ان کی وضاحت کرتے ہوئے ان پر اپنے ریمارکس بھی دیتا تھا۔ استاد اپنے دیئے ہوئے لیکچر کو شائع کراتا تھا جسے دوسرے اساتذہ اور طالبعلم خرید کر پڑھتے تھے۔ لیکچرز کی اشاعت کی وجہ سے استادوں اور طالب علموں میں بحث و مباحثہ ہوتے تھے۔
عہد وسطیٰ کی یونیورسٹی کے نصاب میں منطق کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی تھی۔ لیکن سولہویں صدی میں جب سماجی علوم کی اہمیت ہوئی تو منطق کا کردار بھی گھٹ گیا۔ ماسٹر کی ڈگری حاصل کرنے تک طالب علم کی عمر 25 سال تک پہنچ جاتی تھی۔ جب کہ اوسط عمر 60-50 سال ہوا کرتی تھی۔ جو طالب علم قانون، طب اور تھیالوجی میں ڈگری لینا چاہتے تھے انہیں سب سے پہلے آرٹس کے شعبے میں گریجویشن کرنا پڑتی تھی۔ اس طریقہ کار کی وجہ سے تکمیل تعلیم تک طالب علم کی عمر کا خاصہ حصہ لگ جاتا تھا۔
یورپ اور امریکہ کی بہت سی یونیورسٹیوں کی ساخت میں عہد وسطیٰ کی یونیورسٹی کا آج بھی عمل دخل ہے۔ اس سے یہ اندازہ ضرور ہوتا ہے کہ علم کے حصول کے لیے استاد اور طالب علموں کو سخت محنت کرنی پڑتی تھی۔ تعلیم کا مقصد یہ بھی تھا کہ وہ سوالات کریں اور موضوع کو چیلنج کریں۔

مزید پڑھیں:  ''چائے کی پیالی کا طوفان ''