سیاسی مکالمے کو کامیاب بنانے کی ضرورت

اگرچہ تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے حکومت سے رابطوں میں عدم پیش رفت پر چند روز میں اسمبلیاں توڑ دینے کا عندیہ دیا ہے بلکہ ببانگ دہل اعلان کیا ہے لیکن دوسری جانب خود تحریک انصاف کی صفوں میں اور خاص طور پر پنجاب میں حکومتی اتحادی جماعت اسمبلیوں کی تحلیل کے نہ صرف حق میں نہیں بلکہ انہوں نے بنا مشاورت پنجاب کابینہ میں ایک نئے وزیر کا اضافہ کرکے اس امر کا عندیہ دیا ہے کہ پنجاب میں حکومتی معاملات میں استحکام اور اس کی ضرورتوں کو فوقیت دی جائے گی، سب سے اہم پیش رفت مسلم لیگ (ن) کے ہر دور حکومت کے معتمد خاص اور اعتدال کی راہ نکالنے کے شناور اسحاق ڈار کی صدر مملکت سے ملاقات ہے جس سے اس امر کا امکان نظر آتا ہے کہ کسی درمیانی راستے پر اتفاق کر لیا جائے گا خود حکومت کو مذاکرات کے معاملے پر پی ڈی ایم کے صدر مولانا کے صدر مولانا فضل الرحمان کی مخالفت کا سامنا ہے اس لئے دیکھا جائے تو مشکلات ہر دو جانب موجود ہیں۔ خوش آئند امر یہ ہے کہ مذاکرات کے لیے سلسلہ جنبانی جاری ہے جس میں سیاسی حل نکلنے کی توقع کی جا سکتی ہے تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی سے لے کر حال ہی میں اہم تقرری تک کے دوران ملک جس سیاسی ہیجان خیزی پر مبنی حالات کا شکار رہا ہے اس کے سیاسی، معاشی اور معاشرتی اثرات کے اعادہ کی ضرورت نہیں لیکن اب دسمبر کی سردی کے باوجود برف پگھل رہی ہے اور اس کے لیے حرارت سیاسی ملاقاتیں اور رابطے ہی ثابت ہو رہے ہیں اس عمل کو آگے بڑھانا چاہئے اور ایسا کرنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ ملکی معیشت اور معاشی حالات سیاسی تصادم کے متحمل نہیں ہوسکتے مہنگائی 40 سال کی بلند ترین سطح پر ہے اس کی دیگر وجوہات سے قطع نظر سب سے بڑی وجہ داخلی حالات ہی کا عمل دخل زیادہ ہے، حالات کو اس نہج پر پہنچانا یا پہنچنے میں سیاسی انتشار کا بنیادی کردار ہے، گزشتہ چھ سال ماہ اور قبل جو حالات رہے بلکہ اگر قرار دیا جائے کہ نواز شریف حکومت کے آخری دو سال سے لیکر تحریک انصاف کی حکومت اور موجودہ حکومت تک جس قسم کے سیاسی حالات رہے قطع نظر کہ اس کے پس پردہ کون سے عناصر تھے بالآخر ذمہ داری سیاست دانوں ہی پر عائد ہوتی ہے کہ ان کی وجہ سے ہی ملک اس قسم کی صورتحال سے دوچار رہا، سیاسی صورتحال اس قسم کی نہ ہوتی اور ملک میں اتفاق و ہم آہنگی کا ماحول ہوتا، پارلیمان اور حکومت، ادارے مضبوطی اور فعالیت سے اپنا کام کر رہے ہوتے تو ان مسائل و مشکلات سے نکلنے کی صورت نکل سکتی تھی بلکہ حالات کم از کم اس نہج آتے ہی نہ۔
بدقسمتی سے ملکی سیاسی قیادت ایک طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود ہم آہنگی کی کسی صورت پر ہنوز اتفاق پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے، اب بھی اگرچہ نیمے درون و نیمے بیرون قسم کے رابطے جاری ہیں مگر دوسری جانب طنابیں کاٹ دینے کی دھمکیاں بھی دی جا رہی ہیں باوجود اس کے کہ خود ان کو اس امر کا بخوبی علم بھی ہے کہ ایک طناب تک ان کی دسترس کی صورتحال کیا ہے اور ایسی صورتحال میں جو باقی ایک طناب رہ جاتی ہے اسے بھی کاٹ دینا گویا خود کو چھت سے محروم کرنے کے مترداف ہے سیاسی طور پر بھی بغیر کسی مفاہمت اور اتفاق و ہم آہنگی میں کوئی بھی یک طرفہ قدم موزوں نہیں بلکہ الٹا نقصان دہ ہوگا اس لئے بہتر ہوگا کہ درون خانہ جو رابطے چل رہے ہیں ان کو مضبوط بنانے اور زمین ہموار کرنے کی سعی ہو خواہ مخواہ کی بڑھک بازی سے اجتناب کیا جائے تاکہ معاملات آگے بڑھ سکیں بہرحال صدر عارف علوی اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی ملاقاتوں اور روابط سے امید کی جاسکتی ہے کہ ہر دو شخصیات کی نشست محض بیٹھک کی حد تک نہیں رہی ہو گی بلکہ اس کے کچھ اچھے اثرات بھی قوم کے سامنے آئیں گے۔ یہ امر دشوار اور مشکل اس لئے ضرور ہے کہ ہر دو جانب مذاکراتی ماحول پیدا کر نے کے مخالفین بلکہ بااثر مخالفین موجود ہیں لیکن مصلحت اسی امر کی متقاضی ہے کہ ہم قومی سطح پر جن یکے بعد دیگرے بحرانوں کا شکار چلے آ رہے ہیں اور آراء کے جس اختلاف کے باعث سیاسی تلخیوں میں جو ریکارڈ اضافہ ہوتا آیا ہے اب ان تلخیوں کو سیاسی روابط کے ذریعے دور کرنے کی سعی کی جائے ہمارے تئیں سیاسی جماعتیں محاذ آرائی کی بجائے اگر روابط پر توجہ دیتے تو بات چیت کے ذریعے اختلافات سے نکلنا مشکل نہ تھا۔ اگرچہ اب بھی صورتحال سے یقین محکم وابستہ کرنے کی کوئی صورت نہیں نظر آتی مگر اس کے باوجود مدہوم امید وابستہ کی جاسکتی ہے کہ حکومت اور حزب اختلاف کی توجہ مفاہمت کی طرف ہو گئی ہو گی اور مفاہمت کی طرف بڑھنے والے قدم فاصلے دور کرنے میں مددگار ثابت ہوں گے سیاسی مخالفین کو ہٹ دھرمی کی بجائے مفاہمی کا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے سیاسی جمود کو توڑ کر مسائل سے نکلنے کا عزم کیا جانا چاہئے نئے انتخابات پر اتفاق رائے اور موزوں سیاسی ماحول بنا کر اس طرف بڑھنے پر اتفاق ہو تو جاری بحران ہی کا خاتمہ نہ ہوگا بلکہ آئندہ عام انتخابات کے حوالے سے جس ماحول کی ضرورت ہے اس کی طرف بڑھنا ممکن ہوگا جس کے بغیر اگر خدانخواستہ اسی ماحول میں اور اس قسم کی سیاسی کشیدگی کے عالم میں عام انتخابات کا انعقاد ہو بھی جائے تو اس کے پرامن شفاف ہو اور اس کے نتائج تسلیم کئے جانے کا عمل سوالیہ نشان بنا رہے گا اور خدانخواستہ ملک بحران در بحران کی کیفیت سے نکل نہیں پائے گا۔ پاکستانی عوام کافی عرصے سے اس امر کی منتظر ہے کہ آج نہیں تو کل سیاسی قائدین ہوش کے ناخن لیں گے اور ضد و انا چھوڑ کر معاملات کو آگے بڑھانے کا موزوں راستہ نکالیں گے جس کی اس وقت سب سے زیادہ ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں:  اداروں کومزیدمتحرک کرنے کی ضرورت