لاٹھی کو درمیان سے پکڑو

کوئی استاد سکول میں دیر سے آتا ہے اور اس کو روکنا ہے تو اس طریقہ سے:میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے استاد بننے کا شوق رکھا ہے اور ماشاء اللہ…اللہ تعالیٰ نے آپ کو اچھا اخلاق نصیب کیا ہے،شاگرد بھی آپ سے محبت رکھتے ہیں…اور…مگر میری تمنا ہے کہ آپ صبح سکول جلدی آ جائیے۔
بیوی کو اگر بچوں کے کپڑے صاف رکھنے کی ترغیب دینی ہے تو اسے اس طرح کہیں: تم بہت اچھی ہو،گھر بھی ماشاء اللہ صاف رکھتی ہو اور مجھے پتہ ہے کہ بچے تھکے ہوئے ہوتے ہیں…اور…مگر میری تمنا ہے کہ بچوں کے کپڑوں کا ذرا اور بھی خیال رکھو۔ بات کا یہ طریقہ سب سے اچھا ہے کہ سامنے والے کی پہلے اچھائیاں بیان کی جائیں، پھر اس کی غلطی پر تنبیہ کی جائے تاکہ انصاف کے دائرہ سے نہ نکلیں۔
کسی کی غلطی بیان کرنی ہو تو کوشش کریں کہ غلطی والے کی سب سے پہلے اچھائیاں بیان کریں، سامنے والے کو یہ محسوس کرائیں کہ آپ اس کی اچھائیوں پر بھی نظر رکھے ہوئے ہیں، اور اس کی غلطی پر جو تنبیہ کر رہے ہیں اس کا معنی یہ نہیں کہ آپ کی نظروں سے گر چکا ہے یا آپ صرف اس کی برائیوں پر نظر رکھتے ہیں اور اچھائیوں کی طرف نہیں دیکھتے،بلکہ اسے یہ محسوس کرائیں کہ آپ کی تنبیہ کرنا اس لیے ہے کہ آپ اس کی اچھائیوں میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم محبت کرتے تھے کیونکہ آپ معاملہ میں مہارت استعمال کرتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر آسمان کی طرف دیکھنے لگے جیسا کوئی شخص گہری سوچ میں کھڑا ہوتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اب وقت آ گیا ہے کہ لوگوں سے علم اٹھا لیا جائے گا، حتیٰ کہ لوگ علم سے کچھ نہ لے سکیں گے،بعض لوگ قرآن مجید کی تلاوت و تعلیم کو چھوڑ دیں گے اور دینی علم کی طرف توجہ نہیں کریں گے نہ اس کو سمجھ پائیں گے۔
ایک صحابی کھڑے ہو کر کہنے لگے یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، علم کیسے ہم سے اٹھا لیا جائے گا؟ جب کہ ہم نے قرآن یاد کر لیا ہے،اللہ کی قسم! اگر ایسا ہونے والا ہے تو ہم اپنے اہل و عیال کو پڑھائیں گے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صحابی کی طرف دیکھا کہ: صحابی یہ بات جذبہ سے کر رہا ہے اور دین کی غیرت رکھتا ہے،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی سوچ کو ٹھیک کرنا چاہا،تو فرمایا: تیری ماں تجھ سے جدا ہو،میں تمہیں تو فقہاء اہل مدینہ میں سے سمجھتا تھا ان لفظوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کے سامنے صحابی کی تعریف اور اچھائی بیان کی ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تورات و انجیل کو دیکھو ان کے ساتھ یہود نصاریٰ نے کیا کیا؟
یعنی قرآن مجید یاد ہونے کی بات نہیں بلکہ بات اصل یہ ہے کہ لوگ قرآن پر عمل نہیں کریں گے نہ اس کے حکم کی تعمیل کریں گے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیسا اچھا معاملہ کیا۔
ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرب قبیلوں کو اسلام کی دعوت دے رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت میں سب سے اچھے اور نرم الفاظ استعمال کرتے تھے تاکہ لوگ دین کی طرف راغب ہوں،دعوت دیتے ہوئے آپ ایک قبیلہ سے گزرے جن کا نام بنو عبداللہ تھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دین کی دعوت دی اور فرمایا: اے بنی عبداللہ!
اللہ تعالیٰ نے تمہارے دادا کا نام اچھا بنایا ہے یعنی تم دوسرے قبیلوں جیسے نہیں ہو جن کے ناموں میں شرک ہوتا ہے جیسا(بنی عبدالعزی…بنی عبدالات) بلکہ تم بنی عبداللہ ہو اور تمہارے نام میں کوئی شرک نہیں تو تم آئو اسلام میں داخل ہو جائو،دیکھو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ کو کس طرح دعوت دی، پہلے اس قبیلہ کی اچھائی بیان فرمائی ہے پھر دین کی دعوت دی،تو ہمیں بھی چاہئے کہ ہم بھی کسی کی غلطی کی اصلاح کرنا چاہیں تو سب سے پہلے سامنے والے کی اچھائیں بیان کریں۔ اگر اچھائیاں معلوم نہیں تو سب سے پہلے وہ باتیں کریں جن میں نصیحت کرنے والا اور نصیحت سننے والا مشترک ہوں جیسے پچھلی مثالوں میں بیان کیا گیا ہے۔
مثلاً آپ نے کسی دکاندار کو دیکھا کہ وہ اونچی آواز سے گانے سن رہا ہے تو اس کو نصیحت کرنے سے پہلے آپ اس کی دکان کی تعریف کریں اور دعائے خیر کریں پھر اسے کہیں یار اگر گانے سننے بھی ہیں تو آہستہ آواز سے سنو، دوسروں کو اذیت نہ دو ویسے تو گانے شرعاً حرام ہیں،تاکہ وہ شخص محسوس بھی نہ کرے اور بآسانی عمل پر آمادہ ہو جائے۔
عقل مند بنو،سامنے والے کی اچھائیاں بیان کرو اور اس کی غلطی اچھائیوں کے سمندر میں ڈبو کر نکالو پھر نصیحت پیش کرو، دوسروں پر اچھا گمان رکھو تاکہ انہیں یہ محسوس ہو کہ آپ مصنف ہیں تو آپ سے محبت کریں۔ اگر لوگوں کو محسوس ہو جائے گا کہ جیسے ہم ان کی غلطیاں ملاحظہ کرتے ہیں،ویسے اچھائیاں بھی ہمارے سامنے ہیں،اس وقت ہم سے نصیحت و ارشاد قبول کریں گے۔(زندگی سے لطف اٹھائیے)

مزید پڑھیں:  باجوڑ:سابق رکن قومی اسمبلی اخونزادہ چٹان کی گاڑی پر دھماکہ